ڈاکٹر طاہر القادری وطن پہنچ گئے
لاہور: پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی ) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری لندن سے براستہ دبئی لاہور پہنچے،جہاں عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکنوں نے اُن کا استقبال کیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری گزشتہ روز غیرملکی پرواز ای کے 624 کے ذریعے لندن سے براستہ دبئی لاہور کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
آج صبح 7 بج کر 40 منٹ پر اُن کے طیارے نے لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر لینڈ کیا,جہاں پاکستان عوامی تحریک کے سینکڑوں کارکن اپنے قائد کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
ڈان نیوز اسکرین گریب |
نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق اس موقع پر سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔ اگرچہ عوامی تحریک نے پنجاب پولیس سے سیکیورٹی لینے سے انکار کردیا تھا تاہم پنجاب حکومت نے ایلیٹ فورس کی 8 گاڑیاں ڈاکٹر طاہر القادری کے قافلے کی سیکیورٹی کے لیے فراہم کیں۔
اس کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک یوتھ فورس کے150 دستے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی سیکیورٹی پر مامور تھے۔
ڈان نیوزاسکرین گریب—۔ |
ڈاکٹر طاہر القادری کا استقبال پارٹی کے لاہور چیپٹر کی جانب سے کیا گیا، وہ لاہور ایئرپورٹ سے ماڈل ٹاؤن میں واقع اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہوئے۔
عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری تقریباً 7 ماہ بعد پاکستان واپس آئے ہیں،وہ 3 دسمبر2014 کوعلاج کے لیےبیرون ملک گئے تھے۔
پاکستان عوامی تحریک موجودہ حکومت خصوصاً پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹہرا کر آج بھی سراپا احتجاج ہے۔
یاد رہے کہ 17جون 2014 کو لاہور کا پوش علاقہ ماڈل ٹاؤن اُس وقت میدان جنگ بن گیا جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر اور تحریک منہاج القرآن سیکریٹریٹ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران عوامی تحریک کے کارکنان کا پولیس سے تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت 17 افراد ہلاک اور 90سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک نے اپنے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں اسلام آباد میں دو ماہ سے زائد دھرنا بھی دیا تھا۔
پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری کے مطالبے پر سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے گزشتہ برس 13 نومبر کو پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی،جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل تھے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اُس وقت کے ایس پی سیکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔
سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے دوبارہ سے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں مختلف مقامات پر احتجاج بھی کیا گیا۔
تبصرے (3) بند ہیں