فلم ریویو : جراسک ورلڈ
اگر تو آپ مجھ جیسے ہیں یعنی چڑیا گھر جانا آپ کو مکس جذبات کا شکار کردیتا ہے جیسے ایک طرف تو آپ وہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ خطرناک جنگلی جانوروں کی قربت ایک سنسنی خیز تجربہ ثابت ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ ان جانوروں کو ان کے فطری ماحول سے دور قید میں رکھے جانے پر افسوس یا دکھ کے احساس کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
اگر ایسا ہی ہے تو جراسک ورلڈ کو دیکھنا بالکل ایسا ہی ہے، ڈائنوسارز کا نظارہ شاندار ہے مگر آپ درندوں کے لیے افسوس کا اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے (جو اس فلم میں اداکار ہیں) جنھیں اتنے محدود کرداروں میں قید کردیا گیا۔
یہ خاص طور پر فلم کے مرکزی کرداروں کے لیے تو بالکل درست ہے، یعنی بہت زیادہ سنجیدہ کرس پرٹ (اوئن گریڈی) اور برائس ڈیلاس ہوورڈ جنھوں نے پارک منیجر کلاری ڈیرنگ کا کردار کیا۔ دونوں باصلاحیت اداکار جراسک ورلڈ سے مناسبت رکھتے نظر نہیں آئے اور ایک جبری رومان کا حصہ بھی بنے۔
کرس پرٹ اور برائس ڈیلاس ہوورڈ فلم کے ایک منظر میں — فوٹو بشکریہ یونیورسل پکچرز |
دوسری جانب کلاری کے بھانجوں زیک (نک روبن سن) اور گیری (ٹی سمپکنز) عام زمرے کے کردار قرار دیےءجاسکتے ہیں بلکہ انہیں یہ نام بھی دیئے جاسکتے ہیں جیسے خطرے میں پھنسا بچہ نمبر ایک اور خطرے میں بچا پھنسا بچہ نمبر دو وغیرہ۔ یہاں ڈائریکٹر کولن ٹریورو کے لیے ایک اشارہ ہے : اگر آپ حقیقی تناﺅ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے دیکھنے والوں کو انسانوں کی پروا ہونی چاہئے جنھیں ڈائنوسارز اپنے لنچ بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
جراسک ورلڈ کی کہانی لگتا ہے کہ اس سیریز کی سابقہ فلم کے ڈی این اے سے تیار کی گئی ہے اور یہ اسٹوری کافی فرسودہ قسم کی ہے۔ اس فلم کا آغاز بیس سال پہلے ختم ہوجانے والے جراسک پارک پر ایک تھیم پارک کی تعمیر سے ہوتا ہے۔ زیک اور گیری اس نئے ڈائنوسار تھیم پارک جسے جراسک ورلڈ کا نام دیا گیا ، میں اپنی خالہ کے پاس آتے ہیں۔ کاروبار بڑھانے کے لیے پاگل ماہر جینیات ڈاکٹر ہنری وو (بی ڈی وونگ) لاتعداد خطرناک ڈائنوسارز کے ڈی این اے کچھ موجودہ جانوروں سے ملا کر ایک انتہائی خطرناک نسل انڈومینوس ریکس کی تخلیق کرتے ہیں۔
یہ بالکل واضح تھا کیونکہ ٹیرانوسورز ریکس بہت زیادہ خطرناک نہیں، جبکہ دنیا ایسے خطرناک مخلوق کے لیے بہت چھوٹی ہوجاتی ہے جنھیں روک پانا لگ بھگ ناممکن ہو۔
اوئن گریڈی جو ویلو سارائپٹر کے ماہر ہوتے ہیں اور لیدر جیکٹ کو فیشن کی دنیا میں واپس لانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، خبردار کرتے ہیں کہ انڈومینوس ریکس ابھی اپنے عروج کے لیے تیار نہیں تاہم انہوں نے اس سپر درندے کی ذہانت کا کافی کم اندازہ لگایا ہوتا ہے،جس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ جینیاتی انجنئیرنگ کا شاہکار یہ ڈائنوسار اپنے فرار کا ڈرامہ کرتا ہے جس سے اس کے للیے اپنے احاطے سے نکلنے کا ایک راستہ بنتا ہے۔
جلد ہمیں اوئن گریڈی اور کلاری کی ناکام شادیوں کی تاریخ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے اور اوئن باقی فلم میں اس چنگاری کو دوبارہ سلگانے کے لیے کوشاں رہتا ہے جبکہ دوسری جانب کلاری کا کردار ایک عجیب موڑ لیتا ہے۔
ابتدا میں ایک سرد مزاج اور حاکمانہ ذہنیت رکھنے والی یہ خاتون جسے بچوں کے نہ ہونے پر شرمندگی ہوتی ہے، یہی کلاری بتدریج اوئن گریڈی کے رومانوی حربوں میں کشش محسوس کرنے لگتی ہے اور اس کی وجہ اس کے اندر اپنے بھانجوں سے تعلق کے نتیجے میں ممتا کے جذبات کا بھڑکنا ہوتا ہے۔
ایک سخت گیر ملازمت پیشہ خاتون سے دوبارہ جنم لینے والی ماں تک کا یہ سفر واقعی بہت عجیب ہے اور کسی مضحکہ خیز نقل سے کم نہیں۔
شکر کی بات یہ ہے کہ ڈائنو سارز بذات خود اس فلم کی ٹکٹ کا خرچہ پورا کردینے کے لیے کافی ہیں تاہم اس کا انحصار بھی اس کی احمقانہ پلاٹ کو برداشت کرنے پر ہے۔ فلم کے اسپیشل ایفیکٹس کمال کے ہیں خاص طور پر تھری ڈی میں اور یہ فلم یقیناً بچوں کے لیے ضرور پرلطف ثابت ہوگی۔
مختصراً جراسک ورلڈ ایک متاثر کن فلم نظر آتی ہے تاہم اس کی کہانی کافی کمزوری ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں