’ریپ‘، ہندوستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا جرم: رپورٹ
واشنگٹن: انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ریپ‘ ہندوستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا جرم ہے تاہم اس جرم کے حوالے سے اکثر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
رپورٹ کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2013ء میں ہندوستان بھر میں ریپ کے 33 ہزار 707 کیسز رپورٹ ہوئے (یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوسکے ہیں) جو گذشتہ سال 2012ء کے مقابلے میں 35.2 فیصد زائد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر، شمال مشرقی جھاڑکنڈ اور چھتیس گڑھ میں نچلی ہندو ذات دلت اور قبائلی خواتین غیر محفوظ ہیں، جو یا تو ریپ کا شکار ہوئیں یا پھر اُن سے ریپ کی کوشش کی گئی۔
ہندوستان کے قومی جرائم کے اعداد شمار کے مطابق دیگر قوموں کی خواتین کے مقابلے میں ہندوؤں کی نچلی ذات دلت کی خواتین ریپ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بچوں سے زیادتی کے کیسز بھی ایک عام سی بات ہے جبکہ حکومت بچوں سے زیادتی کے قانون کے حوالے سے لوگوں میں آگہی بیدارکرنے میں بھی ناکام ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماؤ باغیوں کے زیر انتظام علاقوں اور شمال مشرقی ریاستوں میں باغیوں کی جانب سے انتہائی قسم کی قانونی خلاف ورزیاں سامنے آرہی ہیں، ان میں قتل، اغوا برائے تاوان، تشدد، ریپ، بھتہ اور بچوں کو اپنے سپاہی کے طور پر استعمال کرنے کے جرائم شامل ہیں۔
ہندوستانی داخلی نقل مکانی کے مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق ماؤ باغیوں کے زیر انتظام ہندوستانی علاقوں، کشمیر اور شمال مشرقی علاقوں میں جاری غیر مستحکم حالات اور تنازعات کی وجہ سے 54 ہزار افراد اندرون ملک نقل مکانی کرچکے ہیں۔
رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں یہاں سرِ فہرست پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والی قانونی خلاف ورزیاں ہیں،جن میں ماورائے عدالت قتل، تشدد اور ریپ شامل ہیں۔
امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں سماجی انتشار کی ایک بڑی وجہ جنس، مذہبی عقائد، ذاتیں اور قبیلہ بھی ہے۔
خیال رہے کہ ہندوستان کے علاقوں ناگا لینڈ، مانی پور، آسام اور تری پورا کے کچھ حصوں میں آرمی فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) تاحال نافذ ہے۔
اس قانون کے تحت ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ امن وامان کے قیام کے لیے حکومت کی جانب سے انتشار زدہ قرار دیئے جانے والے علا قوں میں طاقت کا استعمال کرسکتی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ اے ایف ایس پی اے کے قانون کی وجہ سے ہندوستانی فوجوں کو کشمیر میں ہونے والی شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاتا۔