جنگل سے بدتر معاشرہ؟
جن معاشروں میں حکومتی رٹ کا نام و نشان نہیں ہوتا، جہاں خود قانون دان قانون، انصاف، اور عدل کو اپنے پاؤں تلے روندنا فخر محسوس کرتے ہوں، وہاں حقوقِ انسانی، انسانیت، اور انسانی شرف کتابی باتیں بن کر رہ جاتی ہیں۔
”مہذب“ معاشرے میں زندگی گزارنے کے اصول بدل جائیں تو پہلے عورت کی نہیں، ”تہذیب“ کی آبرو چکنا چور ہوتی ہے۔ تہذیب کی آبرو چکنا چور ہونے کے مظاہرے ہم آئے روز ”مملکتِ خداداد پاکستان“ میں دیکھتے رہتے ہیں۔
تکریمِ آدمیت ایک ایسی یونیورسل سچائی ہے جس پر تمام مہذب معاشروں کی اخلاقی عمارت کی بنیاد کھڑی ہے۔ ”بنیاد“ کی اس ”اینٹ“ کو نکال دیا جائے تو ایسے معاشرے جنگل سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔ جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، مگر جنگل سے بدتر معاشروں کا کوئی دستور نہیں ہوتا۔
پڑھیے: حادثات دیکھنے کا جنون
ہربنس پورہ لاہور کے ایک رہائشی بابر کا چھوٹا موٹا کاروبار شاہ عالم مارکیٹ کے کچھ دکانداروں کے ساتھ گذشتہ 20 برس سے چل رہا ہے۔ کاروباری لین دین کے سلسلے میں اکثر ان کا آنا جانا شاہ عالم مارکیٹ ہوتا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں وہ شدید بخار کی حالت میں اپنی رقم کی وصولی کے سلسلے میں شاہ عالم مارکیٹ جاتا ہے۔ طبیعت کی خرابی کے پیش نظر وہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے لیتا ہے، دونوں میاں بیوی موٹر سائیکل پر شاہ عالم پہنچتے ہیں۔ بابر ایک جگہ موٹر سائیکل کھڑی کرتے ہیں، اور اپنی بیوی سے کہتے ہیں آپ یہاں رکو، میں پانچ منٹ میں واپس آتا ہوں۔
بیوی موٹر سائیکل کے پاس ”پانچ منٹ“ گزرنے کا انتظار کرنا شروع کرتی ہے۔ ہر راہ چلتے مرد کی ہوس بھری للچائی نظریں اسے اپنے بدن میں سماجی اخلاقیات کی تعلیم دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری جانب بابر متعلقہ دکاندار سے رقم وصول کر کے واپس اس جگہ پر آتا ہے جہاں وہ موٹر سائیکل کے ساتھ اپنی بیوی کو کھڑا کر کے گیا تھا۔ اب یہ بخار کی شدت تھی یا کوئی اور پریشانی کہ اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ ہونقوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر اپنی بیوی کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے، مگر ذہن ایسا ماؤف ہے کہ اُسے کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا۔
کبھی اِدھر کبھی اُدھر پریشانی کے عالم میں اپنی موٹر سائیکل سمجھ کر کسی اور کی موٹر سائیکل میں چابی لگانے جیسے عمل اس سے سرزد ہونے لگتے ہیں، اور اس کی یہ ”سعی“ بڑھتی جاتی ہے اور وقت گزرتا جاتا ہے۔ اس کی اس طرح کی حرکتیں اسے مشکوک بنا رہی تھیں۔ ”ایک ایسے معاشرے میں جہاں ریاستی سطح پر ہر شہری کو مشکوک قرار دیا جا چکا ہو، اور قومی میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے ہر دوسرے شہری کو اس پر ”نظر“ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہو، تو وہاں بابر جیسی حرکتیں کرنے والے کو ”انجام“ تک پہنچانا معاشرے کا فرضِ عین بن جاتا ہے۔
بخار کی شدت میں انسان ہذیان بکنے لگتا ہے لیکن بابر ہذیانی حرکتیں کر رہا تھا۔ وہاں پر موجود کچھ لوگوں نے اس کی ان ”مشکوک“ حرکتوں کو ”جرم“ اور اسے ”پکا چور“ جانتے ہوئے آن دبوچا۔ ہجوم اکٹھا ہوتا گیا، قانون اور انصاف کا ترازو ڈنڈے سمیت ہجوم کے ہاتھوں میں، اور بابر کی دھلائی شروع کر دی جاتی ہے۔ اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر اسے مارا پیٹا جاتا ہے ”ہجوم“ کا غصہ ٹھنڈا ہو تو وہ کچھ کہے، سب اسے چور کہہ کر سزا دینے پر تلے ہوئے تھے۔
پڑھیے: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
بابر کو پیٹنے کے دوران اس کی قمیض کی سامنے والی جیب میں پڑے سات آٹھ ہزار روپے، جو اس نے وہاں کسی دکاندار سے وصول کیے تھے، کو نکال لیا جاتا ہے۔ کچھ دیر میں پولیس کے اہلکار تشریف لاتے ہیں اور اسے پوچھے بنا ہجوم والا انصاف کرتے کرتے دھپہ دھول لگاتے اور گریبان سے پکڑے تھانے لے جاتے ہیں۔
اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے، لیکن وہ ان کی کسی بات کا جواب دینے سے قاصر تھا۔ صرف اتنا کہہ پایا کہ وہ ہربنس پورہ رہتا ہے، اور چور نہیں ہے۔ پولیس کے ”شیر جوان“ اس کی تلاشی لیتے ہیں تو سائیڈ والی جیب میں موجود رقم نکال لی جاتی ہے، اور شناختی کارڈ بھی جس پر اس کا پتہ مغلپورہ کا درج ہوتا ہے۔
پولیس کے شیر جوان آگے بڑھ کر اسے پھر مارتے پیٹتے ہیں۔ اتنے میں وڈا تھانے دار آجاتا ہے۔ "کیا ہوا؟" زور سے ہانک لگاتا ہے۔ سر یہ پکا چور ہے اور مان ہی نہیں رہا، اپنا پتہ بھی غلط بتا رہا ہے۔ اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے، مارکیٹ کے لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔
وڈا تھانیدار آگے بڑھتا ہے، اوئے اِنہوں ”لمبیاں پاؤ“ اور جیسے ہی اسے لمبیاں پانے کے لیے وہ اس کی کلائی کو پکڑتا ہے تو اسے ایک دم جھٹکا سا لگتا ہے۔ وہ اچھی طرح اس کی کلائی کو پکڑ کر دیکھتا ہے، اور فوراً اپنے ماتحتوں سے کہتا ہے کہ اسے تو بہت تیز بخار ہے، اسے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤ اور جب بابر کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جایا جاتا ہے تو وہ اسے چیک کرنے کے بعد کہتا ہے اگر تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو۔۔۔
اسے اس وقت 104 سے تیز بخار اور ہائی بلڈ پریشر تھا۔ اس حالت میں ہارٹ اٹیک اور برین ہیمرج کے خطرے کے علاوہ انسان اپنے حواس تک کھو بیٹھتا ہے، جو بابر پہلے ہی کھو چکا تھا۔ اگر وڈا تھانیدار اس کے بخار کو محسوس نہ کرتا، اور لمبیاں پا لیتا، تو اس کے بعد جو اس کا انجام ہونا تھا اس طرح کے انجام کے شکار افراد کی خبریں ہم آئے روز اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں، کہ فلاں تھانے میں حرکتِ قلب بند ہونے سے زیرِ حراست ملزم ہلاک ہو گیا۔ یہ بیان پولیس کا ہوتا ہے، جبکہ تشدد کو گول کر دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: پنجاب پولیس: خدمت اور تحفظ کے لیے نہیں
ہجوم کی جانب سے انتہائی تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کراچی میں وکلاء کو زندہ جلایا جانا، سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار دیا جانا، اور کچھ ہی عرصہ پیشتر قصور کی مضافاتی بستی میں عیسائی جوڑے کو بھٹی میں ڈال دیے جانے کے واقعات ابھی بھلائے نہیں گئے ہیں۔ کیا تشدد ہمارے لوگوں کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے؟ کیا تشدد صرف غیر متمدن لوگوں کا ہی خاصہ ہے؟ کیا ہجوم ہر جگہ مائل بہ تشدد ہوتا ہے؟ ایسے ہی اور بہت سے سوالات ہیں جن کے مناسب جواب تلاش کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اگر اس میں عقیدے کا رنگ شامل ہوجائے تو یہ مزید مہلک ہو کر احتجاج کرنے والوں کو ایک ایسے مشتعل ہجوم میں بدل سکتا ہے جس کے پاس اپنی ہی جانب سے قتل کرنے تک کا جواز ہوتا ہے۔ نفرت کی آگ جب جلتی ہے تو یہاں بے جان مورتیوں اور عمارتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ 1947ء میں ہندو مسلم فسادات زوروں پر تھے۔ ”رائے بہادر سر گنگارام" کے مجسمے کو لوگوں نے پتھر مارے۔ مجسمے کا منہ کالا کیا گیا، اور اس کے گلے میں جوتیوں کا ہار ڈالا گیا۔
سعادت حسن منٹو نے اس غیر مناسب حرکت پر ایک لافانی کہانی لکھی جو ہمارے معاشرے کے دوغلے پن اور منافقت کو ظاہر کرنے کے لیے آج بھی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی اس تحریر کے حوالہ جات ملکی اور بیرون ملک تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ یہ تحریر ان کی کتاب سیاہ حاشیے میں ”جوتا“ کے عنوان سے چھپی۔
”ہجوم نے رخ بدلا اور سرگنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا، مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ چنانچہ مرہم پٹی کے لیے اسے سر گنگارام ہسپتال بھیج دیا گیا“۔
تبصرے (7) بند ہیں