غریبی میں نام پیدا کر
جب بھی ماہِ جون آتا ہے تو پہلے وفاقی اور پھر صوبائی بجٹ ایک کے بعد ایک پیش کیے جاتے ہیں اور وزرائے خزانہ کی پیش کی جانے والی بجٹ تقاریر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اسے خرچ کرنے کے لیے مختلف ہیڈز میں تقسیم در تقسیم کیا گیا ہے۔
مگر جب بجٹ تقاریر کے بعد نیوز چینلز پر چلنے والے ٹکرز اور اگلے دن چھپنے والے اخبارات دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ اس سال بھی خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا، جس کا بیشتر دار و مدار بیرونی امداد اور آئی ایم ایف سے ملنے والی قرضوں پر ہے۔
ہر سال بجٹ کی تقریر دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت عظیم شاعر اور مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی نظم "جاوید کے نام" کی آخری لائن "خودی نا بیچ، غریبی میں نام پیدا کر" پر عمل کرتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کے لیے بجٹ انتہائی فخر سے پیش کرتی ہے، جس میں روزِ آخر کی طرح یہ عیاں ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں بھی خرچے، آمدنی سے زیادہ ہیں۔
حکومت کی جانب سے نظم کی آخری لائن کے پہلے حصّے کی تشریح کچھ اس طرح سمجھی گئی ہے کہ اپنی نااہلی اور کاہلی پر شرمندگی اور ندامت محسوس کرنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ دنیا ہمیں امداد دینے پر مجبور ہوجائے۔
پڑھیے: مالیاتی خسارے کا ہدف تبدیل نہیں ہوگا
لازمی نہیں کہ دنیا امیر کی طرف ہی نظریں اٹھائے۔ کیا ہوا جو ہم غریب ہیں۔ بھلا ہم اپنے آپ کو خود تھوڑی بیچ رہے ہیں۔ بلکہ دنیا ہماری خودی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں امداد دینے اور تعاون کرنے پر مجبور ہے۔ ہمیں ضرورت ہو نا ہو، وہ اپنے روشن اور محفوظ مستقبل کے لیے ہماری مالی معاونت کرتے ہیں، کوئی احسان تھوڑی کرتے ہیں۔
ایسے کرتے ہیں غریبی میں نام پیدا۔
بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ "چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیئں"۔ اس نصیحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر ایک عام سا معمولی پڑھا لکھا بھی جب گھر کا بجٹ بناتا ہے، تو وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کے اخراجات، اس کی آمدنی سے زیادہ نہ ہوں، بلکہ خرچے اتنے ہونے چاہیئں کہ مہینے کے آخر میں کچھ بچت بھی ہوجائے، جسے بوقتِ ضرورت استعمال کیا جائے۔ وہ ہرگز یہ نہیں سوچتا کہ میں کسی سے اتنا قرضہ لے کر یا امداد مانگ کر باقی ماندہ خرچے پورے کر لوں گا۔
مگر ہمارے جانے مانے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب ایسا بجٹ بناتے ہیں کہ اکثریتی خرچوں کا دارومدار بیرونی امداد اور آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں پر ہوتا ہے۔
ہماری حکومت ایک ایسی مُنظم اور دانا بِھکاری ہے جو کہ ملنے والی امداد کے استعمال کی پلاننگ امداد ملنے سے پہلے ہی کر لیتی ہے، تاکہ اگر مزید ضرورت ہو تو حسبِ ضرورت مزید امداد مانگ لی جائے۔
مزید پڑھیے: آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کامیاب
پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے امداد کچھ ایسے لیتا ہے جیسے کہ ہم امداد کے مستحق نہیں، بلکہ ترقی یافتی ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سزا کے طور پر ہم جیسے نام نہاد غیر ترقی یافتہ ملک کی مالی مدد کریں، وگرنہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔
پاکستان کو ملنے والی امداد میں سے ایک بہت بڑا حصّہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے ملتا ہے، اور حالات یہ ہیں کہ 9/11 سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے پاکستان ان دونوں بیماریوں سے جان نہیں چھڑا پارہا، بلکہ ان دونوں بیماریوں کے وسیلے دنیا سے مزید امداد کا طلبگار ہے۔
حالت تو اب یہ ہوگئی ہے کہ اگر امریکی کانگریس میں کوئی سینیٹر پاکستان کو دی جانے والی امداد کو روکنے یا شرائط سے مشروط کرنے کا بل پیش کرتا ہے، تو پاکستان میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم سے لے کر وفاقی سیکریٹریٹ کے چپڑاسی تک پریشان ہوجاتے ہیں، سفارتی بنیادوں پر دوسرے ممالک سے امریکا کو سفارش کروائی جاتی ہے۔ امریکا کو ماضی میں کیے جانے والے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں، امریکی صدر کو دہشتگردی کی اس جنگ میں ساتھ نبھانے کے واسطے دیے جاتے ہیں۔
ہر حکومت آئی ایم ایف سے ملنے والی قرضے کی قسط کی وصولی کو ایک عظیم سنگِ میل گردانتی ہے۔ قسط کی ادائیگی سے قبل آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط کو من و عن تسلیم کیا جاتا ہے، تاکہ ملنے والے قرض کی قسط میں تاخیر سے زیرِ تعمیر پُل، موٹر ویز، اور میٹرو بس کے منصوبے تاخیر کا شکار نہ ہوجائیں۔
امداد دینے والے بھی شاید نیم غنودگی کی حالت میں امداد پاکستان کو دیتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں آئے روز ہونے والی دہشتگردی کے واقعات اور انتہا پسندی تو نظر آتی ہے، مگر آئے روز ہونے والے منصوبوں کے افتتاح اور وزیرِ اعظم کے بیرونی دورے نظر نہیں آتے۔
یہی اگر خوفِ دہشتگردی و انتہاپسندی رکھنے والے ترقی یافتہ ممالک تھوڑا مزید پیسہ خرچ کرکے یہ دیکھ لیں کہ ان کی جانب سے دی جانے والی امداد کا استعمال ٹھیک ہو رہا ہے یا نہیں، تو یقیناً پاکستان دہشتگردی اور انتہا پسندی جیسی بیماریوں سے نجات پا لے۔ اگر پاکستانی حکومت میٹرو اور پلوں پر لگائے جانے والے پیسوں سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے شکار علاقوں میں اسکول، کالجز، اور انفراسٹرکچر بنا دے تو شاید ان دونوں بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہوتا۔
جانیے: امریکی فوجی امداد میں مشروط توسیع
خیر واپس آتے ہیں ماہِ جون میں پیش کیے جانے بجٹ پر۔ بجٹ تقریر میں وزیرِ خزانہ کی جانب سے قوم کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لیے گئے قرضوں پر آنے والے مالی سال میں اتنے کھرب روپے سود کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔
سمجھ نہیں آتا کہ کب تک قرض اور سود کی ادائیگی کا یہ چکر ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اربوں ڈالر کا قرض، پھر کروڑوں ڈالر کا سود، وہ پورا ادا نہیں ہوتا کہ دوسرا قرض لے لیا جاتا ہے۔ حکومت کچھ بھی کہے، لیکن اس کے اقدامات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک کو ایسے مانگ مانگ کر دھکے مُکے میں ہی چلاتے رہنا ہے، اور یہ قرض و سود کی ادائیگیاں ہمارے بجٹ کا لازمی حصہ ہمیشہ رہیں گی۔