گلگت بلتستان انتخابات میں ووٹ دینے سے محروم
گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے انتخاب کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔
کل 6 لاکھ 18 ہزار 364 ووٹروں نے 24 حلقہ انتخاب میں اپنے نمائندوں کو منتخب کیا۔ ووٹروں میں مرد ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 29 ہزار 475 تھی جبکہ خواتین ووٹرز 2 لاکھ 88 ہزار 879 تھیں۔ ان انتخابات میں 272 امیدواروں نے حصہ لیا۔
تاہم ہزاروں افراد ایسے بھی تھے، جو ووٹ ڈالنے کے اس موقع سے محروم رہے۔ دراصل وہ پاکستان کے اہم شہروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے ان دور دراز انتخابی حلقوں تک پہنچنے کے قابل نہیں تھے۔
ان لوگوں کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے آبائی شہروں کو واپس جانے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے کاموں اور تعلیم سے کم از کم ایک ہفتے کے لیے دور ہوجاتے، اور ایک تھکادینے والے سفر کے علاوہ ہزاروں روپے بھی خرچ ہوتے۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان ’’دنیا کی چھت‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس کا سفر آسان مرحلہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں مقیم ہنزہ سے تعلق رکھنے والے اعظم بیگ ایک سرگرم کارکن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’تقریباً 2 لاکھ افراد میں سے میں بھی ایک ہوں، جو دوسری جگہوں پر آباد ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہ 1990ء کے بعد سے چھٹا الیکشن تھا، جس میں ووٹ ڈالنے سے میں محروم رہا۔ اس وقت میں نے کراچی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے گاؤں کو چھوڑ دیا تھا۔‘‘
اعظم بیگ نے مزید بتایا کہ ’’ووٹ ڈالنے کے لیے واپس جانے کا مطلب یہ تھا کہ کم از کم تیس ہزار روپے فی فرد خرچ ہوجاتے اور اپنے کام سے کم از کم ایک ہفتے کے لیے غیرحاضر رہنا پڑتا۔‘‘
سفر کی مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے آبائی شہر کا سفر نہایت دشوار ہے اور محض ایک ووٹ ڈالنے کے لیے یہ تقریباً ناممکن تھا۔
انہوں نے کہا’’نقل و حمل کے مسائل نے ہمیشہ ہمیں ووٹ دینے سے محروم رکھا ہے۔ حکام نے ہمیں پوسٹل بیلٹ کی سہولت فراہم نہیں کی ہے، جس نے گلگت بلتستان میں انتخابات کو ہمارے لیے غیرمفید بنادیا ہے اور ہم اپنے علاقے کی ترقی میں کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔‘‘
اعظم بیگ نے مطالبہ کیا ’’حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمیں پوسٹل بیلٹ کا حق دے، جہاں ہم آباد ہیں، ان شہروں میں پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں، یا پھر کراچی، لاہور اور اسلام آباد /روالپنڈی میں علیحدہ علیحدہ انتخابی حلقے قائم کیے جائیں۔‘‘
واضح رہے کہ تاریخی طور پر کشمیر سے منسلک گلگت بلتستان کے علاقے نے 2009ء میں قانون سازی کے ذریعے محدود خودمختاری حاصل کی تھی۔
لیکن بہت سے مقامی افراد ووٹ دینے سے قاصر رہنے کی وجہ سے اس علاقے کی نمائندگی کمزور رہی ہے، اور ان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
دوسری جانب آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 1970ء سے تشکیل دی گئی تھی، اس کی کئی انتخابی نشستیں پاکستان کے شہروں کراچی، راولپنڈی اور لاہور میں بھی قائم کی گئی ہیں، جہاں آباد ہندوستان سے آنے والے کشمیری مہاجرین بھی اپنے ووٹ کاسٹ کرکے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
لیکن گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایسی کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کے مدثر رضوی کہتے ہیں ’’گلگت بلتستان کے انتخابی عمل میں یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ہزاروں افراد گلگت بلتستان سے باہر ملک کے دوسرے شہروں میں آباد ہیں، اور اس علاقے کا حصہ ہیں، لیکن وہ واپس آنے اور یہاں ووٹ ڈالنے سے قاصر ہیں۔‘‘
مدثر رضوی نے کہا کہ ’’اسی مسئلے کا سامنا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پوسٹل بیلٹ کا حق نہیں دے سکتے، اس لیے کہ یہ کافی گراں قدر ہے۔ لیکن یہاں یہ گراں قدر نہیں ہے، اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ حق دینا چاہیے۔ دوسرا آپشن کشمیری عوام کی طرز پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ’مہاجرین کی نشستیں‘ مختص کی جائیں، لیکن میں اس آپشن کی حمایت نہیں کروں گا، اس لیے کہ میں نہیں سمجھتا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے لیے مہاجر کا درجہ دینا مناسب ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’جس طرح سے بھی ممکن ہو، بڑے شہروں میں آباد گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کے لیے مناسب مقام پر ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا جانا چاہیےاور ہم اپنے پلیٹ فارم سے اس مسئلے کے لیے آواز اُٹھانے جارہے ہیں۔‘‘
بدقسمتی سے پوسٹل بیلٹ اور علیحدہ انتخابی حلقوں کی تشکیل، دونوں حل میں سے بظاہر کوئی بھی بے عیب نہیں۔ مثلاً ’مہاجرین کی نشستیں‘ مختص کرنا، جس طرح کشمیری مہاجرین کو سہولت دی گئی ہے، مشکل سے اپنے مقاصد حاصل کرسکی ہے، اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بڑی پیمانے پر اس میں ہیرا پھیری کی گئی ہے۔
پوسٹل بیلٹ جو سرکاری ملازمین اور قیدیوں کے لیے مخصوص ہیں، ان کا ممکنہ طور پر بھی پولنگ کے عملے اور حکومت اور الیکشن کمیشن پر اثرو رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی جانب سے غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اور ٹرانسپیرنسی (پلڈیٹ) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کہتے ہیں ’’گلگت بلتستان کے شہریوں کو سہولت پہنچانے کے ان دو طریقوں میں سے اگر کسی ایک کو اختیار کریں تو آپ 100 فیصد عوام کی حقیقی نمائندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں۔آپ کو اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں جدید تصورات کو لاگو کرنا ہوگا، اس لیےکہ ان دونوں طریقہ کار کا پہلے ہی غلط استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے واضح کیا ’’کشمیری مہاجرین کے لیے مختص نشستوں پر کیا ہوا ہے؟ حقیقی ووٹرز ان انتخابات میں مشکل سے ہی ووٹ ڈال پائے ہوں۔ اکثر میونسپل کمیٹیوں اور دیگر سرکاری محکموں کے کارکنان ان کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں کشمیریوں کی نشست کے بارے میں یہ طے شدہ ہے کہ اس پر ایم کیو ایم اور لاہور میں مسلم لیگ ن ہی کامیابی حاصل کرے گی ۔‘‘
احمد بلال محبوب نے کہا ’’جہاں تک پوسٹل بیلٹ کا تعلق ہے، یہ سب سے آسان اور سستا طریقہ ہے۔ لیکن اس کا زیادہ تر ریٹرننگ افسران اور دیگر عملے کی جانب سے غلط استعمال کیا گیا ہے، یہ لوگ دور دراز کے مقامات سے ووٹروں کے ارسال کردہ حقیقی ووٹوں کو اضافی بیلٹ پیپرز سے تبدیل کردیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم رکھا جائے۔ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں اور انہوں نے شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے اپنے موجودہ رہائش کا اندراج کروالیا ہے۔ چنانچہ ہمارے پاس ان کا ڈیٹا ہے، اور یہ قابل تصدیق ہے۔ ہمیں پوسٹل بیلٹ علیحدہ نشستوں یا کسی دوسرے انتظامات کے ذریعے انہیں اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق لازماً دینا ہوگا۔ انہیں پہلے ہی طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا ہے، اور قومی سطح پر ان کی نمائندگی مسترد کی گئی ہے۔‘‘
تبصرے (1) بند ہیں