تنقید کریں، مگر تمیز کے ساتھ
سقراط نے ایک بار کہا تھا کہ ”اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ کمزور دماغ کے لوگ، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں۔“ لگتا ہے سقراط کو شاید پاکستانیوں کے بارے میں اس وقت ضرور کوئی الہام ہوا ہوگا، جس پر انہوں نے ایک طویل عرصہ پہلے آج کے پاکستانی معاشرے کی اس خوبی سے متعلق پیشن گوئی کر دی تھی۔
موجودہ پاکستان کو دیکھا جائے تو بے لگام تنقید اور عدم برداشت ایک وبائی مرض کی طرح ہر طرف دکھائی دیتی ہے، جو روز مرہ معمولاتِ زندگی کی طرح عام عادت کا روپ دھار چکی ہے۔ صبح سویرے معمول کے کام کاج کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح تنقید و عدم برداشت کا مادہ بھی صبح سویرے ہی انگڑائیاں لیتا ابھرتا ہے، جو رات گئے بستر پر جانے تک جاری رہتا ہے۔
یوں تو تنقید اپنے نقطۂ آغاز سے ہی تلخی کو جنم دیتی ہے، مگر مسلسل یا پے در پے تنقید حرارت کو بڑھا کر مخالف کو رد عمل پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے فریقین کے مابین جھگڑے کی شروعات ہوتی ہے، جو ہوتے ہوتے جارحانہ انداز اختیار کر لیتا ہے۔
اس صورت میں نہ صرف فریقین، بلکہ ان سے جڑے دیگر رشتے دار بھی اس دانستہ جھگڑے کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، جس سے تمام لوگ ایک نفسیاتی الجھن سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
تنقید بظاہر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اگر تعمیری اور مثبت انداز میں کی جائے تو اصلاح کا سبب بنتی ہے، جبکہ بے جا اور بے محل تنقید برائے تنقید، بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص میں تعمیری اور تخریبی پہلو ضرور ہوتے ہیں۔
لہٰذا ناقد اگر تنقید کرتے وقت شخصیت کی کردار کشی کے بجائے اس شخص کی ذات کو احترام دیتے ہوئے اس شخص کے فعل کی اصلاح کو مد نظر رکھے، تو یقیناً مثبت نتائج مرتب ہوں گے، کیونکہ غلط خیالات یا غلط سوچ پر تنقید کے بجائے اگر شخصیت کی کردار کشی یا تذلیل کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر ایسے ہی منفی رویے جنم لیتے ہیں، جن سے فریقین کے مابین جنگ و جدل کا ماحول پیدا ہوتا ہے جو کہ قوم بالخصوص نوجوان نسل کی گھٹی میں غصے، بے چینی اور تناؤ کا باعث بنتا ہے۔
اس کے برعکس مثبت رویے سے برداشت کا مادہ نمو پاتا ہے، اور سامنے والا نہ چاہتے ہوئے بھی اسی لب و لہجے میں جواب دینے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ایسے میں قوت برداشت و استقامت پیدا ہوتی ہے، جس سے پہاڑ جیسی تنقید بھی باآسانی برداشت کی جا سکتی ہے اور برداشت و استقامت دراصل صبر ہی کا دوسرا نام ہے۔ صبر اگرچہ ایک مشکل عمل ہے، مگر تنقید کے رد عمل کے طور کرنا صبر دراصل ایک ایسی تھیراپی ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لے جا کر خالق کا محبوب بنا دیتی ہے۔ قرآن میں ہے کہ ”اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ ایسے میں جب اللہ کا ساتھ حاصل ہو جائے تو پھر انسان کے لیے تمام مشکلات و پریشانیاں کوئی حیثیت باقی نہیں رکھتیں۔
وسعت اللہ خان نے اپنی ایک تحریر میں کیا خوب کہا ہے کہ ”ہماری قوم علاج سے پہلے بیماریاں از خود تخلیق کرتی ہے“۔ یعنی پہلے ٹھیک ٹھاک ٹھنڈا پانی پی کر گلا خراب کرتی ہے، پھر اس کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کے چکر لگاتی ہے۔
اگر دورِ حاضر کو دیکھا جائے تو آج کے خراب اور انتشار سے بھرپور حالات میں بے جا تنقید، عدم برداشت، اور بے صبری کا بہت بڑا حصہ ہے، اور اس کے لیے ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ ہمارے سیاستدان ہوں یا افسران، گھر ہوں یا دفاتر، اسکول ہوں یا مدرسے، ایک فرد سے لے کر اداروں تک سب ہی ان وبائی امراض میں بری طرح مبتلا ہو چکے ہیں، اور دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے اپنے حلقوں میں انہیں فروغ بھی دیتے ہیں۔
ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ان کے تدارک کے بجائے شخصیت کی کردار کشی اور تذلیل کے لیے ساری اخلاقی حدیں پار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ایسا رویہ اختیار کرنے سے کمزوریاں تو وہیں رہ جاتی ہیں، جبکہ فریقین کے تندو تیز جملوں کے باعث غیر اخلاقی جنگ کی ایک کیفیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ معاشرے کا کل بگاڑ انہی مذکورہ امراض کی بدولت ہے، جو کہ ہماری موجودہ اور بالخصوص آنے والی نسلوں کو بری طرح تباہ کر رہا ہے، اور اس کے ذمہ دار ایک فرد سے لے کر ایوانِ اقتدار تک ہم سب ہیں۔
تنقید کا درست استعمال تب ہی ممکن ہے، جب اس حوالے سے قومی تربیت کی جائے۔ بے اعتنائی کے اس عالم میں ایسا لگتا ہے جیسے سب بے لگام ہو کر ایک مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ والدین کو بچوں کی اور حکومت کو عوام کی تربیت سے کوئی غرض نہیں۔ سب بے پرواہ اپنی موج میں مست زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ بچی کھچی کسر بے لگام میڈیا پوری کر رہا ہے۔
وہ میڈیا جسے آئینہ کہا جاتا ہے، اور جس سے آج کے دور میں اصلاح کی بہت توقع کی جاسکتی ہے، بد قسمتی سے ریٹنگز کی دوڑ میں تمام اخلاقی قدریں بے دردی سے کچلتا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کی گالیوں سے بھر پور ٹاک شوز نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس ڈھٹائی سے دکھائے جاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی اصلاح کی کوئی امید باقی رہ نہیں جاتی۔ نسل تباہ ہو یا برباد، بس اپنی مناجات اور مفادات عزیز رکھے جاتے ہیں۔
تنقید کرنے والا تنقید کر کے اپنی سیاست یا دکان چمکاتا ہے، اور تنقید سن کر اس پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے والا بھی اسی حرارت میں جواب دے کر آگ کو مزید بھڑکاتا ہے۔ بس اسی روش پر ہمارا معاشرہ سالوں سے گامزن ہے۔
ملک میں جاری ملٹری آپریشنز ہوں، از خود نوٹس ہو، یا جوڈیشل کمیشن ہوں، قوم کی اصلاح تب تک نہیں ہو سکے گی جب تک کہ قوم کی انفرادی و اجتماعی سطح پر کردار سازی نہ کی جائے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ گھر سے لے کر حکومت تک سب اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں۔
حکومت قوم بالخصوس نوجوان نسل کی اجتماعی تربیت کے حوالے میڈیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر ترجیحی بنیادوں پر تربیتی و علمی پروگرامز شروع کروائے، اور میڈیا کا ضابطہء اخلاق مرتب کر کے ان پر ان تمام پروگرامز پر پابندی لگائی جائے جو بلاجواز اور بغیر ثبوت کے بے لگام تنقید کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی چپقلش کو بھی اگر ٹاک شوز سے ہٹا کر ایوانوں تک ہی محدود کر لیا جائے تو یہ بھی قوم کے لیے ایک احسان ہوگا، بصورتِ دیگر قوم کی تعمیر و اصلاح کی توقع ایک دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں۔
تبصرے (12) بند ہیں