پولیس جنرل ڈائر تو کالا کوٹ کالا دھبہ
قائداعظم نے گورنر جنرل ہاؤس سے ملیر کے لیے رختِ سفر باندھا تو راستے میں ریلوے پھاٹک بند تھا۔ ریل گاڑی آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ اے ڈی سی میجر جنرل گل حسن گاڑی سے اترے، اور بھاگ کر پھاٹک کھلوا دیا۔ قائد اعظم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، اور اے ڈی سی کی چابک دستی پر نہ صرف ناراضی کا اظہار کیا، بلکہ پھاٹک دوبارہ بند کروانے کا حکم صادر کرتے ہوئے فرمایا "اگر میں خود قانون توڑوں گا تو میری قوم قانون پر عمل کیسے کرے گی؟"
یہ اس شخص کا فرمان ہے، جو نہ صرف بانی پاکستان تھے، بلکہ ایک عظیم اصول پسند وکیل بھی۔ اور اس قائد کی قوم کے وکلاء نے کل سے قانون کو اپنے غلام کا درجہ دے رکھا ہے۔ پولیس کی مبینہ فائرنگ سے دو وکلاء کی ہلاکت مانا کہ ظلمِ عظیم ہے، جانا کہ پولیس بے لگام گھوڑے کی مانند، تسلیم کہ قوم کے محافظ ظالم و جابر، اقرار کہ پولیس میں گلو بٹوں کی بھرمار، قبول کہ پولیس گردی سے معاشرے کی ناک میں دم، اور اعتراف یہ بھی کہ پولیس کا فرض مدد آپ کی نہیں بلکہ خاص کی۔
— ڈان نیوز اسکرین گریب |
لیکن جناب والا قانون کی نبض پر گرفت آپ کی، کلیات و جزیات سے بھی آشنائی آپ کی، ماضی بعید و ماضی قریب کے استعارے بھی آپ کے۔ ہلڑ بازی اور اشتعال انگیزی کی روک تھام پولیس کا فریضہ ہے، اور ان فرائض میں مداخلت، دشنام طرازی، اشتعال انگیزی، اور "چلاؤ گولی، چلاؤ" پر اکسانے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟
یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں کہ احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن پولیس پر تشدد، ڈی ایس پی آفس کو نذر آتش کرنا، ڈی سی آفس، ڈی پی او آفس، اے سی ہاؤس، اور پنجاب اسمبلی پر دھاوے اور توڑ پھوڑ کی اجازت آپ کو کس قانون کے تحت میسر ہے؟ تین تین دن کا سوگ اور عدالتی بائیکاٹ کس قاعدے کے مطابق؟
احتجاجی وکلاء نے پولیس موبائل کے شیشے توڑ ڈالے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب |
یہ بجا کہ ظلم پر اشتعال فطری عمل، یہ بھی سچ کہ پولیس کج رو، کج فہم، اور کوتاہ اندیش، مگر آپ تو دانشور، آپ تو عدل وانصاف کے خوگر، اگر "اندھیر نگری چوپٹ راج" پولیس پر صادق، تو "اندھوں میں کانہ راجہ" آپ بھی ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنا صرف آپ کے ایک اشارہ ابرو کا محتاج، جرم کی کوکھ سے معصومیت و بریت کی تخلیق آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل، لیکن یہ عجب تماشا ہے کہ وطنِ عزیز میں قانون کے ماہر اور قانون کے محافظ دونوں ہی اختیار و احتیاط سے مبرا نظر آتے ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں