• KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am

اب معاشی طاقت پر بھی توجہ دیں

شائع May 28, 2015
— آئی ایس پی آر فوٹو
— آئی ایس پی آر فوٹو

آج ایک بار پھر 28 مئی 1998 کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہندوستان کے مقابلے میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کو اپنا عظیم کارنامہ گردان رہی ہے۔ میڈیا پر اس وقت کے اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی اس تقریر کو بھی بار بار نشر کیا جائے گا جس میں میاں صاحب اس عظیم الشان کارنامے کا اعلان کرتے ہیں، کیونکہ وزیرِ اعظم نواز شریف کے اس اعلان کے بعد پاکستان مسلم دنیا کا پہلا اور دنیا کا ساتواں ملک تھا۔ جس کے پاس ایٹمی طاقت موجود تھی۔

بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی۔ 17 سال بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے جو کہ تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ پھر ایک دفعہ بد قسمتی کہہ لیں یا خوش قسمتی کہ پہلے دونوں بار نواز حکومت اپنا دورِ اقتدار مکمل کرنے میں ناکام رہی، اور اس دورِ حکومت میں بھی کئی بار ایسے مواقع آئے جب لگا کہ حکومت اب گئی کہ اب گئی۔ مگر جو بھی کہیں، اسٹیبلشمنٹ کے حوصلے اور لکھاریوں کے ناقص اسکرپٹ کی بدولت یہ حکومت اپنے تیسرے سال میں داخل ہونے جارہی ہے۔

دوسری طرف ہندوستان میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ جس نے مارچ 1998 میں اقتدار سنبھالتے ہی پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں پاکستانی حکومت نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں ہندوستانی طاقت کو برابر کر دیا، اور دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان کی طرف جو بھی میلی آنکھ سے دیکھے گا، اس کو منہ کی کھانی پڑے گی۔

پڑھیے: ایٹمی مواد سیکورٹی انڈیکس: پاکستان، ہندوستان سے آگے

ہندوستان اگر یہ سمجھتا تھا کہ ایٹمی دھماکے کرنے سے خطے میں اس کا رعب اور دبدبہ قائم ہوجائے گا، تو یہ سراسر اس کی بھول تھی کیونکہ مارچ 1998 کے دو ماہ بعد ہی مئی میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے کر دیے گئے جس کے بعد یقینی طور پر ہندوستانی غلط فہمی دور ہو گئی ہوگی۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس وقت بھی دونوں ممالک میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ مگر علاقائی حالات 1998 کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف ہیں۔ نہ تو 1998 میں 9/11 ہوا تھا، اور نہ ہی اس خطے میں امریکی موجودگی تھی۔ نہ ہی امریکہ افغانستان میں جنگ ہار کر واپسی کے راستے پر تھا اور نہ ہی چین بذریعہ گوادر وسط ایشیا تک رسائی حاصل کر رہا تھا۔

وہ دور ہی الگ تھا۔ 21 ویں صدی کے آغاز کے بعد اب روایتی جنگوں کا دور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جنگیں اب معاشی اور تعلیمی میدانوں میں برپا کی جا رہی ہیں، تاکہ دیگر اقوام کو اقتصادی طور پر غلام بنایا جا سکے۔ اس لیے بدلتے دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ رہنا نہایت ضروری ہے۔

کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار بنیادی طور پر وہاں امن و امان، اور بیرونی خطرات سے تحفظ پر ہوتا ہے۔ اس لیے ہندوستان، اور پھر پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور اعلان ضروری سمجھا تاکہ معاشی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے اپنا اپنا دفاع مضبوط کر لیا جائے، اور بیرونی خطرات نہ رہیں تو اندرونی مسائل پر توجہ دی جائے۔

ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کو اب 17 سال گزر چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ دونوں ممالک میں سے کسی نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا، حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان متعدد بار ایسے حالات پیدا ہوئے جب ڈر تھا کہ دونوں میں سے کوئی بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرسکتا ہے۔

جولائی 2014 سے اب تک پاکستان اور ہندوستان کے دوران مختلف سرحدی مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں 6 پاکستانی فوجی اور 27 پاکستانی شہری جب کہ 8 ہندوستانی فوجی اور 16 ہندوستانی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ مگر خوش قسمتی سے دونوں ممالک کی حکومتوں کی طرف جھڑپوں کو صرف جھڑپوں تک ہی محدود رہنے دیا گیا۔

مزید پڑھیے: ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں پاکستان، ہندوستان سے آگے

نومبر 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے جب دونوں ممالک کی افواج مستعد ہوگئی تھیں، اور ہندوستانی فوج تو پاکستان پر حملہ کرنے کے احکامات کے انتظار میں تھیں۔ مگر خوش قسمتی سے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان تناؤ وقت کے ساتھ ختم ہوگیا۔

دونوں ہی ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بھی ایٹمی جنگ کی صورت میں دونوں کی تباہی یقینی ہوگی۔ ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کسی بھی قسم کی روایتی و ایٹمی جنگ کے خطرات اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔

اور اب چونکہ بیرونی خطرات لاحق نہیں رہے ہیں، تو پاکستان کی اولین ترجیح اس اعزاز پر اب تک خوشیاں منانے کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ہونی چاہیئں، جیسے کہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر وغیرہ۔

دونوں ممالک میں آباد عوام کی ایک بہت بڑی تعداد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایسے حالات میں اگر دونوں ممالک کی حکومتیں ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کے بجائے امریکہ اور چین کے ساتھ معاشی اور تعلیمی تعاون بڑھانے پر زیادہ توجہ دیں، تو یہ یقیناً دونوں ممالک کی عوام کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ اگر ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعلقات بہتر بنائیں، تو یقیناً یہ دونوں دہائیوں پرانے دشمنوں کے لیے بہتر ہوگا۔

جانیے: پاک و ہند ایٹمی جنگ، انسانی تہذیب کی موت

اطلاعات کے مطابق پاکستان کے پاس ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ برتری کا ایک میدان تو ہم نے جیت لیا، لیکن اب اس سے بھی زیادہ اہمیت اور ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان، ہندوستان سے معاشی میدان میں آگے جائے۔ ہتھیاروں کی دوڑ کو اب بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈسٹری اور انفراسٹرکچر میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ توانائی کی مشکلات پر قابو پاتے ہوئے متبادل توانائی کے منصوبے بنانے پر توجہ دے۔

اب ہندوستان اور پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ وقت ایٹمی طاقت کا نہیں بلکہ معاشی طاقت بننے کا ہے۔ کیونکہ ایٹم بم عوام کو تحفظ تو دے سکتے ہیں، لیکن روزگار نہیں۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Malik USA May 28, 2015 10:14pm
You are right. Both countries should realize this fact. Both have atomic power but see the status of ordinary people (India and Pakistan)
ak May 29, 2015 12:21am
Nice. . . Right issue highlighted just at the right time. (But a bit lengthy).

کارٹون

کارٹون : 10 اپریل 2025
کارٹون : 9 اپریل 2025