• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

ایگزیکٹ اسکینڈل: کون کتنا ذمہ دار؟

شائع May 28, 2015
اگر حکومت اور ادارے بروقت اپنی ذمہ داری پوری کرتے، تو یہ اسکینڈل بہت پہلے ہی اپنے انجام تک پہنچ  سکتا تھا۔ — Online/File
اگر حکومت اور ادارے بروقت اپنی ذمہ داری پوری کرتے، تو یہ اسکینڈل بہت پہلے ہی اپنے انجام تک پہنچ سکتا تھا۔ — Online/File

عجب کرپشن کی غضب کہانی ہے۔ جو مستعفی اس پر بھی تنقید اور تحقیر کے نشتر، اور جو کشتیاں جلانے کا بول بیٹھا وہ بھی بچا نہیں۔

بڑے بول کی کہانی بھی کچھ غیر معمولی ہے۔ 2009 میں ایک سعودی صحافی نے کتے کو ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری کا اعزاز بخشنے کا بھانڈا پھوڑا۔ ثبوت ویب سائٹ پر مشتہر کرنے پر ایگزیکٹ کے لیگل ایڈوائزر عبدالکریم اینڈ کمپنی نے نوٹس بھی بھیجا، اور ثبوت ہٹانے کی دھمکی بھی دی۔

خاتون صحافی نے تمام ثبوت پیپلزپارٹی کی حکومت کو ای میل بھی کر دیے، لیکن تب حکومت کو لالے پڑے، نہ ہی ایف آئی اے کو بھنک پڑی۔ آج جب میڈیا چینلز، حکومت، اور ایف آئی اے جعلی ڈگریوں کے کاروبار کو پاکستان کی ہتک سے تعبیر کر رہے ہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ ذمہ داران بروقت اقدام کرتے تو آج نہ انہیں اور نہ ہی قوم کو ندامت اٹھانا پڑتی۔ آج درجنوں صحافیوں کے ضمیر ملامت کرتے، اور نہ ہی سینکڑوں ملازمین نوکری سے نکالے جانے کا عذاب جھیلتے۔

پڑھیے: شعیب شیخ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے

لیکن میں نے اپنے تئیں جب ایگزیکٹ کے کردار کو جانچنے کی سعی کی، تو ہوش ربا حقائق نے چونکا کر رکھ دیا۔ آپ ملاحظہ کیجیے، ایگزیکٹ کا 2007 میں ٹرن اوور 7 کروڑ 91 لاکھ 59 ہزار، 2008 میں 3 کروڑ 12 لاکھ 55 ہزار، 2009 میں 4 کروڑ 50 لاکھ 70 ہزار، 2010 میں 50 کروڑ 70 لاکھ، 2011 میں 89 کروڑ 80 لاکھ، 2012 میں 1.038 ارب، اور 2013 میں 1.582 ارب ظاہر کیا گیا۔

یہ کل پانچ ارب سے زائد کا کاروبار بنتا ہے، اور اس رقم پر 15 فیصد ٹیکس 750 ملین یعنی 75 کروڑ بنتا ہے مگر ٹیکس ادائیگی کی بجائے رقم ریفنڈ کا کلیم کر دیا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ کل ٹرن اوور 100 روپے تھا تو ایف بی آر نے صرف دو روپے کے ٹیکس کا تو آڈٹ کروایا، مگر ان 98 روپوں کے ذرائع کا سوال تک نہ کیا۔ ایگزیکٹ نے اپنے کاروبار میں کمپیوٹر کنسلٹینسی، کمپیوٹر فیسیلیٹی مینیجمنٹ، اور آئی ٹی سہولیات کو ذرائع آمدن ظاہر کیا مگر ایف بی آر نے تحقیقات کے بجائے آنکھیں موند کر رقم ریفنڈ کروانے کی معمولی تفتیش کی۔

ایف بی آر کے سیکشن 122 (5A) کے تحت درخواست گزار کی جانچ پڑتال لازم ہے۔ اس وقت ایف بی آر کے اسیسمنٹ آفیسر امتیاز سولنگی تھے۔ انہوں نے2007 اور 2008 کو Time Barred کہہ کر نظر انداز کر دیا۔ اب اس کا آڈٹ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی ان دو سالوں کی رقم پر ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ حیرت انگیز حقیقت یہ بھی کہ ایف بی آر نے 2009 میں 26 لاکھ، 2010 میں 63 لاکھ، اور 2011 میں 46 لاکھ ٹیکس کی تشخیص کی، لیکن اس کے باوجود ٹیکس لینے میں ناکام رہا۔

المیہ یہ کہ امتیاز سولنگی اس وقت ایڈیشنل کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔ پھر انہیں 19 ویں سے 20 واں سکیل دے کر کمشنر بنا دیا گیا۔ یہ اب بھی دو زونز میں بطور کمشنر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی فائل فائنل نوٹیفکیشن کے لیے وزیرِ اعظم کے دستخطوں کی محتاج ہے۔

مزید پڑھیے: کئی شواہد ابھی سامنے نہیں لائے، ڈیکلن والش

اب سوال یہ ہے جہاں ایگزیکٹ پر آج انگلیاں اٹھ رہی ہیں، وہیں ایف بی آر اور اس وقت کی حکومت کا گریبان کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ جہاں ایگزیکٹ حکام کے خلاف مقدمات و تحقیقات ضروری ہیں، وہیں امتیاز سولنگی اور ایف بی آر سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر ایگزیکٹ کا دھندا ملکی پیشانی پر بدنما داغ ہے، تو ان لوگوں کے بھیانک کردار کی سزا کون تجویز کرے گا؟ جعلی انکم ٹیکس ریٹرن پر قانون کا سہارا تو درکنار، نوٹس تک جاری کرنا گوارا کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا اس کالے دھن میں ایگزیکٹ کے ساتھ ہمارے ادارے بھی شریک جرم ہیں؟

ان سوالات کے جوابات کے بغیر اس تاریخی اسکینڈل سے مکمل طور پر کبھی بھی پردہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔

مہر بخاری عباسی

مہر بخاری عباسی ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی

کی میزبان ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: meherbokhari@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Qazi ZubairUddin May 28, 2015 03:35pm
Here we seen our other media doing create hype for non-hit BOL TV in the industry, and i'm sure the BOL TV will generate unique ideas / entertainment / news etc those all content will based on truth stories. i hope the CEO Shoaib Sheikh will return from custody BOL Win the Market.... Now peoples want to seen BOL ON THEIR TELEVISION...... we are waiting to seen BOL BOL KARDAY GA SUB KO GOL......
Nadeem Zulfiqar May 28, 2015 04:06pm
Its never too late, we should appreciate FIA, at least they are working to bring the fact in front of us and so far we are feeling Axact may find guilty. regarding previous govt, as state by Imran Khan that there are no system of accountability. even if sitting govt start probing it, past govt will screaming and will call it politically harassment. but let this investigation over and we hope this will be precedent for all of us and a good sign for dare to do any illegal work. Long Live Pakistan.
Roomman Arif May 28, 2015 06:44pm
Everyone has played its part in giving free way to Axact and allowing them to run their operations without any barriers. But now the Question is will also be taken against those whose silence have brought disgrace to Pakistan.
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 28, 2015 06:51pm
بجا فرمایا یہ ایک المیہ ہے لیکن یہ المیہ بھی کچھ کم نہیں کہ ہمارے ادارے اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی غیر ملکی صحافی کسی بات کا انکشاف کرتا ہے چاہے وہ میموگیٹس ہو یا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے قیام کی بات ہو اور یا پھر یہ جعلی ڈگری کی خبر ہو ۔ یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ کچھ لمحوں کے لیے ہم حکومتی اداروں کو ایک طرف کردیں اب آئیں تمام میڈیا کی جانب جو رات دن کتے کا گوشت مارکیٹ میں بکتا دیکھاتے ہیں یا پھر جعلی دوائیں ، جعلی ڈاکٹر ، جعلی حکیم اور پیر و فقیر جادوگروں کے کھوج میں لگی رہتے ہیں یہاں تک کے آسیب اور جنات کو بھی ڈھونڈھ نکالتے ہیں تو ان کے کیمرے کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا اور ان سے اوجھل کیسے رہا !!! بس جوں ہی امریکی صحافی نے خبر شائع کی اور ایک دو تین تمام میڈیا تمام ادارے حرکت میں آگئے اور جیسا کہ مہر بخاری صاحبہ نے بلاگ میں تحریر کیا کہ ایک خاتوں صحافی نے پچھلی حکومت کو اس بارے میں آگاہ کیا تو حکومت نے کچھ نہیں کیا، لگتا ہے ہماری حکومتیں صحافیوں میں بھی میڈ ان یو ایس اے یا میڈ ان یو کے کو ترجیح دیتی ہیں ۔
ak May 29, 2015 12:30am
Worth reading. . . Many other similar cases of corruption must also be concluded. For example, few journalists took hefty amounts from Bahria Developers (list revealed on Bahria company letter head almost 2/3 years back).

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024