اردو کی موت
جب میں مشہور اینی میٹڈ سیریز برقع ایونجرز کا اسکرین پلے لکھ رہا تھا، تو ہم کئی طویل نشستوں میں پلاٹ، انفرادی مناظر، مزاحیہ جملے، اور مکالموں پر بحث کیا کرتے تھے۔ ایک پوری قسط لکھنے کے دوران ایسی کئی میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔
ان میٹنگز میں ایسے لوگ شامل تھے، جن کی اردو شدید کمزور تھی، جبکہ یہ سب لوگ ایک اردو ٹی وی شو لکھ رہے تھے۔
کبھی کبھی کوئی شخص مکالمے کے لیے ایسا جملہ تجویز کرتا، جو ہوتا تو بہت ہی بہترین اور منطقی، مگر انگریزی میں ہوتا۔ لیکن کیونکہ یہ ٹی وی پروگرام اردو میں تھا اس لیے ہمیں انہی جذبات کو اردو میں منتقل کرنا پڑتا، جس میں کافی دقت ہوتی۔
ہم سب ہی لوگ اردو سے اس قدر ناآشنا تھے کہ پورے گروپ میں کوئی بھی بھی 'ق' کی درست ادائیگی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ بالکل اندھوں کا اندھے کی قیادت میں چلنے جیسا تھا۔
پڑھیے: 'بعض معروف شاعروں نے اردو کو نقصان پہنچایا'
پھر اچانک کوئی شخص تنگ آ کر کہتا: "اردو کس قدر محدود زبان ہے" (اور یہ جملہ بھی انگریزی میں ادا کیا جاتا)۔ اور ایسا صرف اردو اور اس کے قواعد و ضوابط سے ناآشنا ہونے کی بناء پر کہا جاتا۔ میں نے انہیں ایک عام اردو محاورہ سننے پر ہنستے ہوئے بھی دیکھا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زبان مشکلات کا شکار ہے، اور اسے بچانے میں ہماری عدم دلچسپی سے معاملات مزید خراب ہورہے ہیں۔
برقع ایونجرز کی یہ کہانی تفریحی صنعت میں ہر جگہ موجود ہے۔ لوگ زبان سے اپنی ناواقفیت چھپانے کے لیے زبان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ یہ جان کر نہیں کیا جاتا۔ وجہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ انہیں زبان اس سے بہتر آتی نہیں۔
اب ہم انگریزی اور اردو کے ملغوبے کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس طرح کے عمومی جملوں میں "شاندار آفر"، "اور حاصل کیجیے امیزنگ ڈسکاؤنٹ"، "فن کو آن کرو"، اور میرا ذاتی طور پر پسندیدہ جملہ "رہو کنیکٹڈ ایوری ڈے" شامل ہیں۔ یہی ملک ہے جہاں پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کا نعرہ مکمل طور پر انگریزی میں ہے۔
بہت ہی کم لوگ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں، اور اردو سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ زبان کی باریکیاں سمجھے بغیر ٹی وی مکالموں میں بگاڑ سے بھرپور جملے متعارف کرواتے ہیں۔
مزید پڑھیے: 'اردو کا مطالعہ دماغ کے لیے مفید'
اس لاعلمی کی وجہ سے ہمارے بورڈز پر آسان الفاظ جیسے پہیہ، گاڑی، صفائی، دکان، دستاویز، اور تصدیق وغیرہ کے انگریزی الفاظ اردو میں لکھے جاتے ہیں۔ صرف اس لیے کیونکہ اردو پڑھنا، اور اردو الفاظ سمجھنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ تصور کریں کہ چارلس ڈکنز یا ولیم شیکسپیئر کی تحاریر اردو رسم الخط میں لکھی جائیں۔ کیا یہ ایک گھناؤنا مذاق نہیں ہوگا؟ یہی مذاق ہماری روز مرہ کی زندگیوں میں ہورہا ہے۔
میں اس نسل کا حصہ ہوں جس نے پاکستان میں اردو اور انگریزی کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اردو الفاظ موجود ہوتے ہوئے بھی انگریزی الفاظ کا تڑکہ لگانا پسند کیا۔ ہم نے کچھ الفاظ کو استعمال کرنا چھوڑ دیا اور کچھ کو بالکل ہی بھول گئے۔ یہ زبان کے ساتھ ہماری عملی بغاوت تھی۔
کیا ہماری زبان ہمارے ہاتھوں ہی موت کا شکار ہوگی؟
میں نے زبان کے پیچھے موجود سیاست پر کئی بحثیں، بسا اوقات گرما گرم بحثیں سنی ہیں۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ ہم پر زبردستی تھوپی گئی ہے۔ ہم ان دلائل کو منطقی دلائل نہیں کہہ سکتے کیونکہ زبان سے سیاست کے جو بھی مقاصد ہوں، زبان کا بذاتِ خود سیاست سے تعلق نہیں ہے۔
جانیے: اردو کے دس بہترین ناول
زبانیں اس لیے ہوتی ہیں تاکہ بات چیت کو آسان بنایا جا سکے۔ زبان کا مقصد کسی کو تکلیف پہنچانا نہیں ہوتا۔ اگر ہسپانوی دور میں مذہبی بنیادوں پر ظلم ڈھائے گئے، تو اس میں ہسپانوی زبان کا کوئی قصور نہیں ہے، اور نہ ہی جرمنی میں ہونے والے واقعات پر جرمن زبان کا۔ اور کیونکہ فرانسیسی لوگ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہا چکے ہیں، تو کیا فرانسیسی زبان پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے؟
جو لوگ زبان کو کمتر سمجھتے ہیں، انہوں نے زبان کبھی پڑھی نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انہیں اردو ادب میں ماسٹرز کرنا چاہیے، لیکن کم از کم اردو سے تھوڑی بہت واقفیت تو ہو۔ جو لوگ مشتاق یوسفی، ابنِ انشاء، یا ضیاء محی الدین سے واقف نہیں ہیں، انہیں زبان کے بارے میں کچھ کہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔
پھر وہ لوگ ہیں جنہیں سعادت حسن منٹو سے لگاؤ پیدا ہوگیا ہے، لیکن آپ آسانی سے بتا سکتے ہیں کہ ایسا صرف منٹو کے انتخاب کردہ موضوعات کی وجہ سے ہے۔ میری رائے میں منٹو کا اندازِ تحریر کسی بھی لحاظ سے بے مثال نہیں ہے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زبان پر بہت ہی کم کام ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے نئے الفاظ ایجاد نہیں ہو رہے، یا کیوں ہمارے پاس نئی داستانیں تخلیق نہیں کی جا رہیں۔ اور سب سے زیادہ بدقستمی یہ کہ عوام کے اس بارے میں جذبات کافی ملے جلے ہیں۔
پڑھیے: میری اردو بہت خراب ہے!
اردو سمجھنی ہمارے لیے مشکل ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں شروع سے یہ زبان اس طرح پڑھائی نہیں گئی۔ مشکل پیش آنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر چینی بچے کم عمری میں ہی مینڈیرن (Mandarin) اور کینٹونیز (Cantonese) جیسی مشکل ترین زبانیں ایک ساتھ سیکھ سکتے ہیں، تو ہمارے پاس شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ تجربہ کر کے دیکھیں: پانچ منٹ کے لیے انگریزی کا ایک بھی لفظ استعمال کیے بغیر بات چیت کریں۔ دیکھیں تو صحیح کہ آپ میں کتنی صلاحیت ہے۔ میں صرف دو منٹ کے لیے ایسا کر سکا تھا۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب رہیں، تو اپنے خیالات مکمل طور پر اردو میں ترتیب دیں، اور پھر دیکھیں کہ آپ کتنی دیر تک اردو میں سوچ سکتے ہیں۔
اردو پر کام نہ کرنے کی وجہ سے اس کی ترقی رک گئی ہے۔ ہم اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اردو کے نام پر جس کا جہاں جو دل چاہے، لکھ دے، اور عوام وہی پڑھنے پر مجبور ہیں۔
ہم اپنی قومی زبان کے معاملے میں مزید لاعلم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے جیسے محکمہ تعلیم کے ہوتے ہوئے ہم شکایت و افسوس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
اس لیے شاید سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا، جیسا کہ کسی دانا نے کہا ہے: "مِلک (milk) اگر سپِل (spill) ہوجائے، تو کرائنگ (crying) کرنے سے کچھ گین (gain) نہیں ہوتا۔"
یہ بلاگ انگریزی سے ترجمہ شدہ ہے۔
متعلقہ مضامین
میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال
تبصرے (5) بند ہیں