• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

’شہباز، رانا ثناء سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار نہیں‘

شائع May 21, 2015
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

لاہور: سانحہ ماڈل ٹاون میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کے سانحے پر حکومت پنجاب کی ہدایت پر تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے۔

اس رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور سابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری قرار دے دیا ہے۔

ڈان کو حاصل ہونے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی کاپی کے مطابق ’’پی اے ٹی کے کارکنوں کی جانب سے دو پولیس اہلکاروں کے اغوا اور ان میں سے ایک کے قتل کی افواہوں پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ اس وقت کے ایس پی سلمان علی کی ہدایت پر کی گئی تھی یا ان پولیس اہلکاروں نے ایسا خود سے کیا۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے دوران کانسٹیبل کی ہلاکت کی اطلاع ملی تو اس وقت کے ایس پی سکیورٹی علی سلمان نے اپنے ماتحتوں کو فائرنگ کاحکم دیا جس سے پی اے ٹی کے کچھ کارکن ہلاک ہوئے۔

سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلی پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا ہے۔

پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری کے مطالبے پر سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت کی ہدایت پر بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت واقعہ پیش آیا ڈی آئی جی عبدالجبار موقع پر موجود نہیں تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب، سابق وزیر قانون اور ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کا آپس میں رابطہ نہیں تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں پی اے ٹی کے 42 کارکنوں کی مختلف ٹیلی ویژن فوٹیج سے شناخت کی گئی ہے اور ان کو پولیس پر پیٹرول بم حملوں اور پتھراؤں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کی تشکیل کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پولیس سے جھڑپوں میں زخمی ہونے والے پی اے ٹی کے کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے بیانات حاصل کئے۔

ریسکیو کے ادارے 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رضوان نصیر، سٹی ڈسٹرکٹ حکومت اور ٹی ایم اے کے حکام، صحافیوں اور ماڈل ٹاون میں واقع پی اے ٹی کے سیکرٹریٹ کے اطراف کے رہائشیوں کے بیانات بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس، سٹی ڈسٹرکٹ اور ٹی ایم اے کے ملازمین کے بیانات کے مطابق تجاوزات کے خلاف آپریشن کے لیے کسی حکومتی شخصیت نے ان پر دباؤ نہیں ڈالا تھا۔

ماڈل ٹاون سانحہ کی جے آئی ٹی رپورٹ کو پی اے ٹی کے صدر رحیق عباسی نے مسترد کرتے ہوئے اسے حکومت کا پہلے سے تیار کردہ اسکرپٹ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی اے کے کارکنان غیر مسلح تھے اور ان پر پولیس نے گولیاں چلائی تھیں جو کہ شرمناک عمل تھا۔

رپورٹ پر سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وہ خدا کو شکر ادا کرتے ہیں کہ واقعے کے حقائق سامنے آگئے ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے اور اب سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Noman May 21, 2015 09:11am
aur butt sahab ko kon control kar raha tha
humair May 21, 2015 09:35am
wah politics wah...... is mulk ka nizam wah....kya insaf huwa...agar report a gye ha to ab mugrimo ko saza bhi milny chaye aur jo mulk se bahar gya ha usy bhi wapis lao aur do phansy

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024