زمبابوے ٹیم کی آمد: غلطی کی گنجائش نہیں
ایک بچے کے لیے اس سے زیادہ بڑی خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، کہ وہ اپنے ان ہیروز کو اپنی آنکھوں کے سامنے پرفارم کرتا دیکھے جن کی وہ ہر دم نقل کرتا ہے، اور ان کے جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان کے اسٹار آل راؤنڈر عبدالرزاق ایک بار الٹی کیپ کے اوپر ہیلمٹ پہن کر بیٹنگ کے لیے اترے۔ میں اس وقت ہاسٹل میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اگلے دن سب ہی بچے ان کی نقل کر رہے تھے۔
یہ ہیروز پاکستانی بچوں کے دل و دماغ میں ایسے ہی جگہ بناتے تھے۔
آل راؤنڈرز کی بات کی جائے تو عمران خان اپنے کزن ماجد خان کو کھیلتا دیکھ کر کرکٹ کی طرف راغب ہوئے۔ تب کون جانتا تھا کہ اپنے کزن کو دیکھ کر کرکٹ کا شوقین بن جانے والا یہ بچہ ایک دن اپنے وطن کے لیے ٹرافی جیت کر لائے گا؟
ملک میں کسی بھی کھیل کے فروغ کے لیے اس کی ٹیم کو اس کھیل میں زیادہ سے زیادہ فتوحات حاصل کرنی ہوتی ہیں۔ میرے بڑے کزن مجھے بتاتے ہیں کہ جب 1992 کا ورلڈ کپ پاکستان کے نام ہوا، تو کس طرح انہوں نے اور ان کے دوستوں نے اگلے ہی دن سے کرکٹ کا سامان خرید کر اس کھیل کو اپنا لیا تھا۔ 2009 میں ورلڈ ٹی 20 بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ جیت کے فوراً بعد میں نے نوٹ کیا کہ نیٹ پریکٹس کے لیے آنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
پڑھیے: ہندوستانی حکام کو زمبابوے سیریز دیکھنے کی دعوت
اور موجودہ وقت کی بات کریں تو زمبابوے کے دورہ پاکستان کے ساتھ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک سیاہ اور طویل دور اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔
اس ٹور کے ساتھ ہی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی امیدیں بحال ہوگئی ہیں۔ کرکٹ کے متوالوں کے لیے یہ چھ سالہ طویل سردیوں کے بعد بہار کا موسم ہے۔ قذافی اسٹیڈیم کے اسٹینڈز اور کرکٹ شائقین نے ایک زمانے سے اس لمحے کا انتظار کیا ہے۔ ان سطور کے لکھتے وقت 22،000 سے زیادہ ٹکٹیں فروخت ہوچکی ہیں، جبکہ ملک بھر سے پاکستانی پاکستان کے ثقافتی دار الحکومت پہنچ رہے ہیں، تاکہ اس تاریخی موقع کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کیا جا سکے۔
ٹور میں محدود اوورز کے پانچ مقابلے ہیں۔ ویک اینڈ پر دو ٹی 20 انٹرنیشنل میچ ہوں گے، جبکہ اس کے بعد 3 ون ڈے انٹرنیشنل مقابلے ہوں گے۔ 9 روزہ دورہ 22 مئی سے 31 مئی تک جاری رہے گا۔
امید ہے کہ اپنے کھلاڑیوں کو صرف 10 میٹر دور کھیلتا دیکھ کر پاکستان کے نوجوانوں میں ضرور اس کھیل سے محبت پیدا ہوگی، اور وہ اس کھیل کو اپنائیں گے۔
کلب کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی شمولیت پاکستان کرکٹ کے لیے بہت ضروری ہے۔ کلبز ہی خطے کی کرکٹ کو فروغ دیتے ہیں، اور اس سطح پر تیار کیے گئے کھلاڑی ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کے میدان میں اترتے ہیں۔
یہ ایونٹ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا مورال بلند کرنے میں بھی مدد دے گا۔ اس کی پرفارمنس گذشتہ دو سالوں میں کافی گری ہے، خاص طور پر ون ڈے انٹرنیشنل میں۔ پاکستان نے اپنی آخری ون ڈے سیریز دسمبر 2013 میں جیتی تھی۔
گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کا جیت اور ہار کا تناسب کافی خراب رہا ہے۔ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے یہ تناسب صرف 0.92 ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہارے گئے میچز زیادہ ہیں، جیتے گئے کم۔ ذیل میں دیگر ٹیموں کے جیت/ہار کے تناسب ہیں:
واضح طور پر اپنی سرزمین پر کھیلنا ٹیم کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے، اور یہ اعتماد بیرونِ ملک کے ٹورز میں بھی کام آتا ہے۔
پاکستان کے معاملے میں یہ 2014 میں سیریز جیتنے میں ناکام رہے، سات میچز میں شکست ہوئی اور صرف چار میچز ہی جیت پائے۔ اور اس سال انہیں بنگلہ دیش کے ہاتھوں تاریخی وائٹ واش کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی اسکواڈ میں شامل زیادہ تر کھلاڑیوں نے کبھی ہوم گراؤنڈ پر ایک بھی بین الاقوامی میچ نہیں کھیلا ہے۔ حال میں ون ڈے کپتان مقرر کیے گئے اظہر علی، احمد شہزاد، اور عمر اکمل ایسے ہی کھلاڑیوں میں سے ہیں۔
لیکن زمبابوے کا دورہ پاکستان تبدیلی لائے گا۔
یہ سیریز 2003 میں بنگلہ دیش کے دورہ پاکستان کے جیسی ہی ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ 2002 میں کراچی کے ایک ہوٹل پر، جہاں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹھہری ہوئی تھی، بم دھماکے کے بعد معطل ہوگیا تھا۔
پڑھیے: زمبابوے سیریز سے قبل اہم چیلنجز درپیش
بنگلہ دیش کے ٹور کے بعد اس سے بڑے ٹورز کے لیے دروازہ کھل گیا، اور ہندوستانی ٹیم دو بار پاکستان آئی، اور پھر انگلینڈ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، اور ساؤتھ افریقہ نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔
اگر یہ دورہ کامیاب ہوتا ہے، تو شاید یہ تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا ہوگا۔ گذشتہ ماہ سری لنکن صدر نے پاکستان کے اپنے پہلے سرکاری دورہ پر وعدہ کیا کہ وہ سری لنکن ٹیم کو پاکستان بھیجیں گے۔ بنگلہ دیش نے بھی آنے والے سالوں میں دورہ پاکستان کا اشارہ دیا ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی ناخواشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو یہ پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دے گا۔ اب کی بار غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔