• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

سوئیڈش اور پاکستانی اسکولوں میں کیا فرق ہے؟

شائع May 16, 2015 اپ ڈیٹ May 18, 2015
اسکولوں کے ذریعہ تعلیم پر تو بحث ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ہیں جنہیں تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔ — فوٹو شامین خان/ڈان ڈاٹ کام
اسکولوں کے ذریعہ تعلیم پر تو بحث ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ہیں جنہیں تبدیل کیا جانا ضروری ہے۔ — فوٹو شامین خان/ڈان ڈاٹ کام

پاکستان کے نظامِ تعلیم کے بارے میں میڈیا میں اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ تعلیمی مسائل اور کارکردگی کے بارے میں ماہرین سے لے کر عام آدمی تک سب اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کچھ حل پیش کرتا ہے، اور کوئی کچھ۔ کسی کے نزدیک تعلیم اردو میں دی جانی چاہیے، کسی کے نزدیک مادری زبان میں، تو کسی کے نزدیک انگریزی میں۔

لیکن اس بات پر کوئی بھی بحث نہیں کرتا کہ زبان کے علاوہ دیگر کیا چیزیں ہیں، جنہیں درست اور تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اسکول سسٹم میں اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اسکول سسٹم میں کیا فرق ہے، یہ بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔

پاکستان کے نظام تعلیم کا بنیادی مسئلہ تدریسی نظام کی بنیاد یعنی اسکول سسٹم کی خرابی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیار میں اوپر جا رہی ہے، اور پاکستانی یونیورسٹیز کے طلباء دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستان کی صفِ اول کی یونیورسٹیز میں وہی کورسز ویسے ہی پڑھائے جاتے ہیں، جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیز میں۔

اسی طرح سوئیڈن بھی اعلیٰ تعلیم میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اس کی تین جامعات دنیا کی سو بہترین یونیوسٹیوں میں شامل ہیں۔ طب، انجینیئرنگ اور دوسرے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے دنیا بھر سے طالب علم یہاں کا رخ کرتے ہیں، لیکن یہ پھر بھی اپنے اسکولوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور موجودہ حکومت نے اسکولوں کے لیے ایک خطیر اضافی رقم مختص کی ہے، جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

پڑھیے: اسلام آباد کا ایک ' ماڈل' اسکول

سوئیڈش وزیراعظم نے اس مقصد کے لیے ایک قومی پلان بنایا ہے کیونکہ ان کے مطابق ملک کا مستقبل اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ مجھے پاکستان اور سوئیڈن دونوں کے تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کا موقع ملا ہے، اور میرے خیال میں پاکستان میں اسکول کے نظامِ تعلیم کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں میری مراد بند اسکولوں کو کھلوانے، یا ان میں سہولیات کی عدم موجودگی سے نہیں، بلکہ مجموعی طور پر اس طریقہ تعلیم سے ہے، جو اسکولوں میں رائج ہے کیونکہ جن بچوں کی بنیاد اسکول سے ہی مضبوط ہوگی، انہیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔

اس وقت سوئیڈن کے ہمسایہ ملک فن لینڈ کا اسکول سسٹم دنیا بھر میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کے اسکولوں کا نظامِ تعلیم تقریباََ ایک جیسا ہے۔ یہاں بچے سات سال کی عمر میں اسکول شروع کرتے ہیں۔ نظام تعلیم کی 100 فیصد ذمہ داری حکومت پر ہے۔ نجی اسکول بہت ہی کم ہیں، اور جو ہیں وہ بھی حکومتی سرپرستی اور مالی امداد پر ہیں اس لیے سرکاری اور نجی اسکولوں میں کوئی خاص فرق نہیں، بلکہ عوام کی غالب اکثریت سرکاری اسکولوں کو ترجیح دیتی ہے۔

بچوں کو کتابیں، کاپیاں، پینسلیں، اور دوسری تمام چیزیں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے۔ نہ بچوں پر غیر ضروری مضامین کا بوجھ لادا جاتا ہے، اور نہ ہی انہیں چھٹیوں میں لکھنے کے لیے کام دیا جاتا ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خوب مزے کریں البتہ مطالعہ ضرور کریں۔

امتحان کی بات آئے تو ہر بچے کی انفرادی جانچ پڑتال ہوتی ہے، اور ہر سال نہ سالانہ امتحانات ہوتے ہیں، اور نہ ہی اول دوم سوم آنے والوں کا اعلان ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان میں کمزور بچوں کو اسکول کی جانب سے مفت ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔

ہر جماعت اور مضمون کے لیے محکمہ تعلیم نے ایک نصاب بنایا ہوا ہے، جس پر اسکول عمل کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک ہی طرح کے اسکول ہیں اور محمود و ایاز کے بچے ایک ہی صف میں بیٹھے علم حاصل کرتے ہیں۔ اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرے میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ اساتذہ کی تعلیم و ترقی کے لیے بھی ایک منصوبہ ہوتا ہے تاکہ وہ مزید مؤثر انداز میں بچوں کو پڑھا سکیں۔

مزید پڑھیے: ’تمام مشکلات کے باوجود، میں روز اسکول جاتی ہوں‘

پاکستان اور سوئیڈن کے اسکول کے نظام تعلیم میں جو سب سے بڑا فرق مجھے نظر آیا ہے وہ یہ کہ سوئیڈن میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کی جاتی ہیں اور کسی بچے کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا، اُس کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے، اور اس کی شخصیت کو مزید نشونما دی جاتی ہے۔ انہیں سوچنے، سمجھنے، اور معلومات حاصل کر کے اپنے الفاظ میں بیان کرنا سکھایا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں اگر پاکستان کے کسی بچے کو کہا جائے کہ کسی موضوع پر دو صفحات لکھو تو اکثریت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا سارا زور رٹا لگانے پر ہے، اور جو رٹا لگا لیتا ہے، وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا ہے۔

سوئیڈن سے ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کو پاکستان منتقل کر کے ایک بڑے نجی اسکول میں داخل کروایا، جو پاکستان میں بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن بچوں نے چند ہی ماہ بعد وہاں کے نظامِ تعلیم سے بیزاری کا اظہار کردیا اور واپس سوئیڈن چلے آئے۔ میرے پوچھنے پر بچوں نے بتایا کہ وہاں رٹا لگا کر جواب نہ دیا جائے تو استاد فیل کر دیتے ہیں اور اگر اپنے الفاظ میں کوئی جواب دیا جائے، تو کہتے ہیں کہ تم زیادہ دانشور بننے کی کوشش نہ کرو۔

دوسرا فرق یہ کہ سویڈن میں ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے، جس کی وجہ سے بچے ساری عمر مشکل میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہاں سوئیڈن میں تارکین وطن کے بچوں کو حکومت کی طرف سے ان کی مادری زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، اور تاکید کی جاتی ہے کہ بچوں کے ساتھ گھروں میں مادری زبان میں ہی بات کریں تاکہ ان کی صلاحتیں بہتر نشونما پاسکیں، اور اس طرح وہ دوسری زبانیں اور علوم بہتر سیکھ سکیں گے۔

سوئیڈن میں انگریزی دوسری جماعت سے، اور پانچویں جماعت سے کوئی ایک یورپی زبان پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد بچہ متعلقہ یورپی زبان میں لکھنے پڑھنے کے علاوہ بات چیت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی اب پاکستانی اسکولوں کا ذریعہ تعلیم بن چکا ہے اور دس سال تک بچوں کو اسی میں تعلیم دی جاتی ہے، مگر میٹرک کے بعد بھی طالب علم کیوں انگریزی میں اس اعتماد کے ساتھ بات نہیں کرسکتے جیسے یہاں کے طالب علم کرسکتے ہیں؟

وہاں بڑی فیس لینے والے نجی اسکولوں میں بھی انگریزی اردو میڈیم میں پڑھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ اردو میڈیم رہتا ہے اور نہ انگریزی، بلکہ یہ دونوں زبانوں کا ملغوبہ بن گیا ہے۔

جانیے: ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے

پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو اسکول کے سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد رکھنے ہوں گے، جنہیں اچھی تنخواہ دی جائیں، اور بچوں کو تعلیمی سہولتیں دینا ہوں گی۔ رٹا لگانے کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ بچوں کو اپنے الفاظ میں جواب دینے کی نہ صرف تربیت دی جائے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔

ذریعہ تعلیم مقامی زبان ہونا چاہیے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے ملک میں ایک طرح کا نظامِ تعلیم اور ایک جیسے اسکول ہونے چاہیئں جن میں ہر طبقے کے بچے ایک ساتھ علم حاصل کریں، تاکہ طبقاتی تفریق ختم ہو سکے۔

تعلیمی پالیسیاں بناتے وقت ان لوگوں سے رہنمائی اور تجاویز لینی ضروری ہیں، جو پاکستان اور دیگر ممالک کے تعلیمی نظام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اگر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے، تو یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا کے قدم کہاں ہیں، اور ہمارے کہاں۔ جب تک اس طرف نہیں سوچا جائے گا، ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔

عارف کسانہ

عارف محمود کسانہ سویڈن کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ کالم نگار اور صحافی ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے منتظم بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: arifkisana@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ May 16, 2015 05:24pm
سویڈن اور پاکستان کے نظام تعلیم میں ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ سویڈن میں نظام تعلیم بغیر کسی نظریہ کے کام کرتا ہے جبکہ پاکستان کا نظام تعلیم ملاں ازم کے کنٹرول میں ہے اور یہ صرف ہمسایہ ملکوں کے خلاف بچوں کو ابھارتا ہے کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی ہندو مسلم فسادات کے نام پر اور کبھی کشمیر کے نام پر۔ جو بچہ اسطرح ابھرنے سے انکار کرے اسے فیل کر دیا جاتا ہے اور حب الوطنی سے دور قرار دیکر مستقبل کا غدار گردان لیا جاتا ہے۔ چاہے سائنس ہو چاہے سوشیالوجی ہو، ہر مضمون میں کسی نہ کسی طرح مذہب کو گھسیڑا جاتا ہے۔ تعلیم میں سے مذہب کا عنصر خارج کر کے آج کے بچے کل کے شہری بنائے جا سکتے ہیں۔ مذہبی تعلیم گھر میں دی جانی چاہیے اور لوگ دیتے بھی ہیں۔
Saeed Khan May 16, 2015 05:53pm
Thanks & real analysis. Hum log sari umr English system k pechay bhagtay rahaingay....jis ki waja sy hamray bachay takhliqi salahiyaton sy aari rahaingay. agar hum URDU Ko zariya e taleem bana lain to Pakistan k future py iss k achayasrat parraingay.
Afatqiamat May 16, 2015 06:49pm
... Just Teach them " How " to think.... rather then " What " ...to think ...
M Waqas Amin May 16, 2015 07:11pm
Ma ap sy mukamal agree hn but kia ap apny channel pr School system ko drust krny k lia koe programme kr skty hain. "Mentinence Of School System Throughout Media".
RAFIA KHAN May 16, 2015 09:09pm
muft taleem, sb k lie aik he taleemi nizam aur madri zuban mai taleem he taraqi yafta mulko ki nishani hai.
Majid May 16, 2015 09:36pm
You are comparing Swedish school system with Pakistan. Pakistan school system even can not compete with Bangladesh. Govt educational institute are almost dead ... only purpose of gout school is our beloved MNAs/MPAs use school systems to give jobs to their own political party workers or sell teaching jobs to earn more money in addition to other corruption they do... this is nothing to do with mullaisam it is purely our corrupted society and and our political system they destroyed not only education system but the whole country... they do not care about country or their education system their kids get education abroad when they are not in govt they go foreign countries when election come they come back and start the corruption where they left ... God bless our country we are the most corrupted nation in the world....
Shahbaz May 16, 2015 10:41pm
I am very agree with all content of above talk. one more thing .in pakistan parents send their children at the age of 3 year. this is main time of kids growth and we put extra burden on them
عارف کسانہ May 16, 2015 10:50pm
سکولوں مذہبی تعلیم دینا کوئی قابل اعتراض بات نہیں سویڈن میں بچوں کو مذہب کی تعلیم سے روشناس کروایا جاتا ہے اور انہیں گرجا گھروں میں لے جایا بھی جاتا ہے کرسمس کے موقع پر زیادہ تر وقت انہی سرگرمیوں کی نذر ہوتا ہے سکول میں بچوں کو مذہب کے بارے میں مکمل آگاہی دی جاتی ہے البتہ یہاں تمام مذاہب کا بچوں تعداد دیا جاتا ہے اور بچے مساجد، گرجا گھروں، سینا گوگا اور دیگر مذہبی مقامات کا دورہ کرتے ہیں پاکستان کے معیار تعلیم کی پستی کی وجہ مذہبی تعلیم نہیں بلکہ دیگر عوامل ہیں جو بلاگ میں اور تبصرہ کرنے کرنے والے قارئین نے سامنے لائے ہیں
Dr. Ali Azhar Butt May 17, 2015 11:12am
I absolutely agree! The best education is; to bring out skills/talent from an individual and polish them so that the person enjoys what he/she does and be successful in his/her life.
Noman May 17, 2015 11:23am
Very informative article and our govt should implement solid rules to provide quality education.
شہریار May 17, 2015 02:51pm
مرے حساب سے سویڈن کا نظام تعلیم انتہاے پستے کا شکار ہے۔ دنیا میں ٣٥ نمبر پر سلائڈ کر چکا ہے۔ پاکستان کا کومپریسوں سویڈن کی ساتھ کوئی تک ویسے ہے نہیں بنتا۔ فن لینڈ کا نظام بھی قدرے مختلف hai
Ghulam Sabir May 17, 2015 03:07pm
Pakistan needs revolution in its educational system but it is not possible without a broad revolution in the mind of masses (educated as well as uneducated). This can happen only after a drastic change in the system of Government. We have so many examples of the reforms that had happened in various countries of the world. Take the example of your neighbour Iran and follow it ruthlessly. The common man must come forward and select their appropriate leader who can deliver the result.
M Nawaz May 17, 2015 03:36pm
@Majid I agree
babar_saeed_khan May 19, 2015 02:04pm
Mr.Arif Mahmood it very good analysis of countries educational system. We are entirely different countries living under entirely different system. The main factor is the government or the person who is governing the state, who is answerable to the people, our governing bodies are came in power from the votes of villages, goths n they must gave them their votes other vise the will not survive. So we r in slavery age. Our PM spend more on PM house than budget of education.
Saleem Khan May 19, 2015 07:42pm
بہت اچھی تحریر اور تجزیہ ہے مگر آپ کن سے توقع رکھتے ہیں جن کے بچے اب سکولوں میں جاتے ہی نہیں اور ہمارے ہاں ایک استاد کی عزت ہے استاد سے زیادہ معاشرہ پولیس کے سپاہی، کسٹم کے کلرک، پٹواری اور ایسے ہی دوسرے کئی شعبوں کو دیتا ہے کوئی اپنے شوق سے سکول ٹیچر نہیں بنتا محض مجبوری ہوتی ہے وجہ سب جانتے ہیں

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024