مری ماتا مندر اور امام حسین کا تعزیہ
ایک دن ہمیں وشال نامی شخص نے فون کیا، اور ہماری معلومات میں یہ اضافہ کیا کہ وہ ڈان ڈاٹ کام پر ہمارے بلاگ پڑھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ رتن تلاؤ کے علاقے میں واقع مری ماتا مندر پر لکھیں، جہاں ان کے مطابق ہندو برادری کے افراد کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔
ہم نے ان سے کہا کہ وہ شام 7 بجے ہمیں پریس کلب میں ملیں۔ وشال 7 پریس کلب پہنچے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بازوئی تھیلا تھا (جسے ہم شولڈر بیگ کہتے ہیں)۔ ملاقات کے دوران انہوں نے اپنا تھیلا کھولا اور ہمارے سامنے دستاویزات کے انبار لگا دیے۔ ہم نے ان میں سے کچھ کا اِنتخاب کیا اور باقی انہیں لوٹا دیے۔ اگلا مرحلہ مری ماتا مندر کا دورہ کرنا اور اس کے بارے میں لکھنا تھا۔
کراچی کے مرکزی علاقے صدر کے قریب ایک علاقہ رتن تلاؤ ہے۔ تلاؤ سندھی زبان میں تالاب کو کہتے ہیں۔ رتن تلاؤ بذاتِ خود ایک طویل موضوع ہے۔ فی الوقت ہمارا موضوع رتن تلاؤ کے درمیان اکبر مارکیٹ ہے جہاں مری ماتا مندرہے۔ یہ کراچی کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مارکیٹ ہے۔ اکبر مارکیٹ میں ایک سڑک سسٹر اسکوائر اسٹریٹ کے نام سے ہے۔ اب اس اسٹریٹ کا نام گلی نمبر 19 ہے۔
اسٹریٹ پر مختلف عمارتوں کے درمیان آپ کو ایک چھوٹا سا لوہے کا گیٹ نظر آئے گا۔ اِس گیٹ پر ایک جانب 'یا اللہ' اور ایک جانب 'یا محمد' جب کہ درمیان میں ”مائی جنت کا تازیہ“ لکھا ہے۔ ایک سرکاری نقشے کے مطابق اِس مندر کا کل رقبہ 285 گز تھا جو اَب سکڑتے سکڑتے 50 گز رہ گیا ہے۔ یہاں ہندو اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور محرم میں اس مندر سے امام حسین کا تعزیہ بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ اس مندر کی ملکیت کا ہے، لیکن جن فریقوں کے درمیان یہ تنازع ہے، وہ 285 گز کی ملکیت پر نہیں بلکہ 50 گز کی ملکیت پر ہے، جو کہ باقی رہ گئی ہے۔
دونوں فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں اور معاملہ مقدمے بازی تک پہنچ گیا ہے۔ اہلِ محلہ نے مندر کی ملکیت کے دعوے دار ہندو برادری کے افراد کے خلاف درخواست انتظامیہ کو دی ہے۔ جب کہ مندر پر ملکیت کے دوسرے دعوے داروں نے بھی انتظامیہ کو درخواستیں دی ہیں۔ 2014 کو اکبر مارکیٹ کے رہائشیوں نے متعلقہ تھانے کو ایک درخواست دی جس کا متن حسبِ ذیل ہے:
اسی طرح کی ایک درخواست شری مہاراشٹرا پنچائت کراچی کے وشال راجپوت کی جانب سے کمشنر کراچی کو بھیجی گئی۔12/1/2015 کو کمشنر کراچی کو درخواست کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:
پیر 11 مئی کو میں اور ساتھی محسن سومرو اکبر روڈ پر واقع موٹر سائیکل مارکیٹ کی گلی نمبر 19 سِسٹر اسکوائر اسٹریٹ پر مری ماتا مندر کے گیٹ پر پہنچے۔ گیٹ کے باہر موٹر سائیکلیں کھڑی ہوئی تھیں، اور مندر کی نگران خاتون دکان داروں سے موٹر سائیکلیں ہٹانے کا کہہ رہی تھیں۔ ان کی اِس درخواست پر کم ہی توجہ دی جارہی تھی۔ لہٰذا محسن بھائی اور میں نے موٹر سائیکلیں ہٹانا شروع کیں۔
یہ دیکھ کر سامنے کی دکان پر موجود ایک نوجوان بھی ہماری مدد کرنے آگیا۔ خیر بڑی مشکل سے ہم مندر تک کا راستہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ خاتون نے ہم سے آنے کی وجہ دریافت کی تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں امام حسین کا تعزیہ دیکھنا ہے۔ وہ ہمیں اندر لے آئیں۔ وہاں پرایک چھوٹا سا صحن تھا اور اس کے سامنے دو کمرے تھے جن پر تالا پڑا ہوا تھا۔ صحن کے بائیں جانب ایک چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ خاتون جنہوں نے اپنا نام محمودہ بتایا تھا، نے ہمیں چبوترے پر لگا پردہ ہٹا کر تعزیہ دکھایا۔
ان کے مطابق مائی جنت ان کی والدہ تھیں اور 1957 سے تا دمِ مرگ اِس تعزیے اور مندر کی نگران تھیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ ذمے داری ان پر آن پڑی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال محرم کی نو اور دس تاریخ کو تعزیے کو زیارت کے لیے باہر لایا جاتا ہے اور اس رسم میں ہندو اور مسلم سب ہی شریک ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہندو مندر میں اپنی پوجا پاٹھ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ہم مندر میں نصب قدیم تختیوں کی تصاویر بنانے لگے جس پر وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ: ”بنا لو بنا لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ابھی پچھلے دِنوں سوامی نارائن مندر میں ہندوؤں کی بڑی پوجا تھی۔ ٹی وی والے فلم بنانے آئے تھے، لیکن مندر والوں نے انہیں بھگا دیا“۔
ہم نے یہ سنتے ہی کیمرہ بند کیا اور ان سے رخصت کی اِجازت چاہی۔ ہندو پنچائیت کراچی کے نائب صدر ڈاکٹر راج اشوک نے ہمیں بتایا کہ مندر کا کل رقبہ 286 گز تھا، جو اب سکڑ کر 50 گز رہ گیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ایک دستاویز بھی ہمارے حوالے کی جس میں لکھا ہے کہ مندر کی زمین 1938 میں الاٹ کی گئی تھی۔ ان کے مطابق بنیادی طور پر یہ مندر ہے اور وہ تعزیے کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے پھر بھلے ہی مندر کے دروازے پر کچھ بھی لکھا ہو۔
اہم بات یہ ہے کہ 9 مئی 2015 کو سندھ کے مختلف مندروں کی مرمت اور تزئین و آرائش کے لیے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ اِس میں مری ماتا مندر کا نام بھی شامل ہے۔ یعنی ریکارڈ کے مطابق یہ مندر ہے۔ لیکن 12/7/1978 کو ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق مہاراشٹرا پنچائت نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ تعزیہ مندر میں اس شرط پر رکھا جائے گا کہ جب ضرورت ہو گی مندرکی جگہ خالی کر دی جائے گی۔ یہ معاہدہ جانو بھائی فیروز شاہ اور موہن گائیکواڑ جو شری شام سوموونش مہاراشٹرا پنچائت کے سیکریٹری تھے، کے مابین ہوا تھا۔
یہ دستاویز بھی ہمیں وشال نے فراہم کی تھی۔ مندر کی نگراں محمودہ بیگم کو ہندوؤں کے پوجا پاٹھ پر کوئی اعتراض نہیں، جبکہ ہندوؤں کا کہنا یہ ہے کہ مندر جاتے ہوئے وہ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔
لیکن یہ بات سچ ہے کہ یہ مندر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مندر میں تعزیہ بھی موجود ہے۔ یوں تو یہ مذہبی رواداری کی ایک خوبصورت علامت ہے، لیکن محمودہ بیگم اور ہندوؤں کے درمیان مندر کی ملکیت کے تنازع کو کس طرح حل کیا جائے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ”کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔“
— تصاویر بشکریہ اختر بلوچ
لکھاری کی وضاحت: اس بلاگ کے شائع ہونے کے چند دن بعد وشال نے مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ مندر اب واپس ہندو برادری کے زیرِ انتظام آگیا ہے۔
تبصرے (11) بند ہیں