سانحہ صفورہ: اب ایک اور کمیٹی؟
گذشتہ روز کراچی ایک بار پھر خون میں لت پت ہو گیا، اور اس بار نشانہ اسماعیلی برادری کی ایک کمیونٹی بس کو بنایا گیا۔ 6 مسلح دہشتگرد بس روک کر اس میں داخل ہوئے، اور بچوں، عورتوں، بزرگوں پر بلاتفریق فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 45 لوگ جاں بحق ہو گئے۔
اسماعیلی برادری پاکستان کے مختلف حصوں میں قیام پذیر ہے، اور ایک انتہائی پڑھی لکھی، تجارت پیشہ، اور شریف برادری تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم اور صحت یوں تو دو ایسے اہم کام ہیں جو حکومت کے ذمے ہیں، لیکن ان دونوں کاموں میں یہ برادری نجی طور پر اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں اسماعیلی برادری کی گراں قدر خدمات ہیں۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان اور آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کے کامیاب ترین اور اعلیٰ ترین معیار کے اداروں میں شمار ہوتے ہیں۔
آرمی پبلک اسکول پشاور، حیات آباد پشاور، اور یوحنا آباد لاہور میں ہونے والے سانحات کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ ایک بار پھر ایسا واقعہ رونما ہو گیا۔ اس کے علاوہ کراچی میں اساتذہ، اعلیٰ پولیس افسران، اور دیگر نمایاں سماجی شخصیات کا قتل بھی جاری و ساری ہے۔
پڑھیے: جامعہ کراچی کے ایک اور استاد قتل
گذشتہ روز کے سانحے سے ایک بار پھر کئی گھر اجڑ گئے، کئی بچے یتیم ہو گئے، اور مذمتوں، تعزیتوں، انکوائریوں، کمیٹیوں سمیت دیگر ڈراموں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ اب یوم سوگ منایا جائے گا، مغفرت کے لیے دعاؤں کے پروگرام ترتیب دیے جائیں گے، زخمیوں کے لیے پھول لے کر پہنچیں گے، میڈیا پر بڑی بڑی باتیں کریں گے، دو چار روز اس واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار، سفاکانہ کاروائی، بزدلانہ حملہ، وغیرہ جیسے چند جملے بار بار بولے جائیں گے، اور پھر ایسے اگلے اندوہناک سانحے کا انتظار کیا جائے گا۔ کمیٹیاں، کمیشن، اور انکوائریاں، سب دم توڑ جائیں گی۔ فائلیں منوں مٹی تلے دب جائیں گی، اور پھر سب بھول جائیں گے۔
تمام تر سانحات کے بعد جو چیزیں سامنے آتی ہیں، وہ ہیں 'مذمت'، 'تعزیت'، 'اجلاس' اور 'کمیٹیاں'، لیکن اس سے آگے بڑھتے ہوئے کوئی مؤثر حکمت عملی اور اس کا نفاذ نظر نہیں آتا۔ صرف اعلیٰ سطحی اجلاس اور مذمتیں ان سانحات کا جواب نہیں ہیں، اور نہ ہی ان سے پاکستانی قوم کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہے۔
حکومت وقت کو اعلیٰ سطحی اجلاس کرنے سے کوئی نہیں روک رہا، لیکن اب تک ہم نے جتنے بھی سانحات دیکھے ہیں، ان کے بعد ہونے والے اجلاسوں کی مکمل کارروائی یہ ہے: "نشستند، گفتند، برخاستند"، اور نتیجہ صفر۔
سانحہ پشاور کے بعد حکومت کی جانب سے بنایا گیا نیشنل ایکشن پلان بھی معصوم اور نہتے شہریوں کی جانوں کے تحفظ میں ناکام نظر آتا ہے۔ سانحہ صفورہ چورنگی کے حوالے سے جب میری معروف تجزیہ کار و صحافی رضا رومی صاحب سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ:
"اس سانحے کے بعد یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ دہشتگردی کا نیٹ ورک ابھی تک مضبوط ہے، اور حکومت کا اعلان کردہ 'نیشنل ایکشن پلان' ناکام دکھائی دیتا ہے۔" رومی صاحب کے مطابق جب تک قتل عام کرنے والوں کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا، اور ملک میں موجود نفرت پھیلانے والی فیکٹریاں بند نہیں ہوں گی، اس وقت تک پاکستان کے شہری اور اقلیتیں اسی طرح نشانہ بنتی رہیں گی۔"
مزید پڑھیے: بس، بہت ہوگئی مذمت
رومی صاحب تو نیشنل ایکشن پلان کی بات کر رہے تھے، یہاں تو کمیٹیاں، کمیشن، اور پلان صرف ان مسائل پر بنتے ہیں جن مسائل کو لٹکانا ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ ان کمیشنوں، کمیٹیوں، اور جے آئی ٹیز کے قیام کا نہیں بلکہ ان میں غیر جانبداری اور وضع کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کا ہے۔ کیونکہ اس ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ایک سنگین مسئلہ ہے، اور اگر عملدرآمد ہوتا بھی ہے تو صرف وہاں جہاں مفاد ہو۔ اور دوسرا یہ کہ ایک قانون کے درجنوں خلاصے پائے جاتے ہیں، امیر کے لیے اور، غریب کے لیے اور۔ قانون ایک ہی ہوتا ہے تشریح مختلف، جس کی وجہ سے ملزمان کو بچ نکلنے کا بھی موقع ملتا ہے۔
دراصل اداروں کی جڑیں بدعنوانی کی وجہ سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ اداروں میں مقرر افسران شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ترکیبیں سوچنے کے بجائے مال بنانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں، اور یوں جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حکومتیں بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ صوبائی حکومت وفاقی حکومت پر، اور وفاقی حکومت صوبائی حکومت پر ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے حادثات کے تانے بانے غیر ملکی خفیہ ایجنسیز کے ساتھ جوڑنے میں بھی ہم مہارت رکھتے ہیں۔ چلو میاں مان لیتے ہیں کہ غیر ملکی خفیہ ایجنسیز پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کروانے میں ملوث ہیں، تو یہ ناکامی کس کی ہوئی؟ ان کو روکنا کس کا کام ہے؟ ان کا سراغ لگا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ذمہ کس کا ہے؟ لیکن ان سب سوالوں کے جوابات ڈھونڈھنے کے بجائے ہم سازش سازش کے قصے سنا کر اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں اور اداروں کی کارکردگی کو پرکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ لیکن یہ کب تک چلے گا؟
جانیے: سازش کی پڑیا
سانحہ یوحنا آباد کے بعد یاد ہے نا کیا ہوا تھا؟ دو لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اسے ہم کیا کہیں گے؟ یہ ہوا کیوں؟ ہجوم کا انصاف نہ صحیح ہے، اور نہ کوئی مہذب شہری اس کی حمایت کر سکتا ہے، لیکن اگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی طرح غفلت برتیں گے، حکومتیں دہشتگردی کے مسئلے پر توجہ نہیں دیں گی، اور ایسے حادثات آئے روز ہوتے رہیں گے، تو یقیناً پاکستان میں بسنے والے پرامن اور محب وطن شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں گے، اور پھر اس ملک میں لگی ہوئی آگ ایسی بھڑکے گی کہ جس پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈز بھی کم پڑ جائیں گی۔
اپنی ناکامیوں کا اعتراف کر کے انہیں سدھارنے کے بجائے ملبہ دوسرے پر ڈالنے کی روایت انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام تنگ آ کر انہیں ہی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیں۔ کیوں کہ اب آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں کہ ہم کب تک "اجتماعی جنازے" اٹھاتے رہیں گے۔