• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

بس، بہت ہوگئی مذمت

شائع May 13, 2015
تصویر بشکریہ وزیرِ اعظم آفس
تصویر بشکریہ وزیرِ اعظم آفس

آج صبح کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے عورتوں اور بچوں سمیت 43 افراد کو ہلاک، اور کئی کو زخمی کردیا۔

اس بس میں تقریباً 60 کے قریب لوگ سوار تھے۔ اطلاعات کے مطابق تمام افراد کو انتہائی اطمینان کے ساتھ قریب سے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ ابھی یہ سانحہ پیش آیا ہی تھا کہ حسب معمول ایک سیلاب آ گیا۔

یہ سیلاب مذمتی بیانات کا سیلاب تھا، اور یہ بیانات جاری کرنے میں پیش پیش سیاستدان تھے۔ ایک کے بعد ایک سیاست دان نے اس سانحہ کی مذمت کی، اور ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ کی طرح ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا گیا۔

صدر، وزیرِ اعظم، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان و قائدین، وزراء، وفاقی وزیرِ داخلہ، اور دیگر نے واقعے کی "سخت الفاظ میں مذمت" کی، اور پھر دہشتگردوں سے "آہنی ہاتھوں سے نمٹنے" کے عزم کا اظہار کیا۔

پڑھیے: سانحہ کراچی: سیاسی و عسکری قیادت کا گورنر ہاؤس میں اجلاس

اس سے قبل پشاور کی امام بارگاہ، اور لاہور کے چرچ میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات پر بھی یہی بیانات جاری کیے گئے تھے، جبکہ سال 2014 میں ہونے والا سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور، جسے ملک کا بدترین سانحہ قرار دیا گیا تھا، اس پر بھی یہی ردِ عمل تھا۔

ایک ہی سائیکل ہے، جو ہر واقعے پر دیکھنے میں آتا ہے۔ وہی رٹے رٹائے جملے ہیں جو ہمیں ہر دفعہ سننے کو ملتے ہیں:

1: سخت الفاظ میں مذمت

2: آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا

3: ہر حال میں تعاقب کیا جائے گا

4: کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا

5: خاموشی

اور آج بھی بیانات اور مذمتوں کا وہی سلسلہ تھا۔

کوئی روایتی مذمت کرتا ہے، کوئی دبے الفاظ میں مذمت کرتا ہے، تو کوئی کھل کر مذمت کرتا ہے۔ کوئی سچے دل سے مذمت کرتا ہے تو کوئی صرف اپنی سیاست چمکاتا نظر آتا ہے۔ سالوں سے ملک میں یہی سب ہوتا چلا آرہا ہے، اور بادی النظر میں آگے بھی یہی سب ہونے کی توقع (خدا نخواستہ) ہے، کیونکہ مذمت سے آگے کچھ ہوتا ہی نہیں۔

مزید پڑھیے: پرامن برادری کو نشانہ بنانا ناقابل فہم، آغا خان

مذمت، مذمت، مذمت۔ پاکستان کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا، اور سب سے کم قدر و قیمت والا لفظ شاید یہی ہے۔ سانحہ ہوتا نہیں کہ مذمتوں کا سیلاب آ جاتا ہے۔

سالوں سے بڑے بڑے سانحات پیش آرہے ہیں۔ حکومت بیان دیتی ہے کہ کسی کو امن تباہ نہیں کرنے دیا جائے گا، اور سختی سے دہشتگردوں سے نمٹا جائے گا۔ سانحہ ہونے کے بعد چند دن ایسے ہی میڈیا پر شور مچا رہتا ہے، اور پھر اگلے سانحے کے انتظار میں ایک لمبی خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

اس ملک میں سانحات کو روکنے کی تیاری کم، اور مذمتی بیانات زیادہ جاری کیے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پریس ریلیزیں تیار موجود ہوتی ہیں، کہ جیسے ہی سانحہ ہو، تو فوراً جاری کر دی جائے۔ یوں سانحے کی تفصیلات بعد میں ملتی ہیں، اور مذمت پہلے۔

بیچارے بے بس اور بھولے عوام یوں ہی خاموش بیٹھے رہتے ہیں، اور پوچھتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کا لہو کس کے ہاتھوں میں تلاش کریں؟ یہ بے بس لوگ آنسو بہانے اور شکوہ کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کر پاتے۔ عوام سڑکوں پر کھڑے انصاف مانگ رہے ہوتے ہیں، اور سیاست دان بڑی بڑی گاڑیوں میں سکیورٹی کے ہمراہ دورہ کر کے چلے جاتے ہیں۔

دورے کرتے وقت ان کا پروٹوکول دیکھ کر ایک عام آدمی کے ذہن میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ اگر ان کو اتنی سکیورٹی مل سکتی ہے، تو کیا عام لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا سکتے؟

بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کو فوری گرفتار کیا جائے گا لیکن ملک میں امنِ عامہ کی صورتحال بد سے بدترین ہوتی چلی جارہی ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی والے اپنی حفاظت کا بندوبست کریں، الطاف حسین

پہلے تو حملہ کیا جاتا تھا، اور معلوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ حملہ آور کون ہے لیکن گزرتے وقتوں کے ساتھ پاکستان میں دہشت گرد اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ حملہ کرنے کے بعد اپنی شناخت کروانے سے بھی نہیں ڈرتے، لیکن بد قسمتی سے ان کے خلاف تب بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

عام شہریوں کی حکومت سے صرف اتنی اپیل ہے کہ مذمت لفظ کا استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ یہ لفظ اب بے معنی ہو چکا ہے۔ عوام کا سوال صرف اتنا ہے کہ حکام مذمت کا بیان جاری کرنے کے بجائے اپنی غفلت کو قبول کرنے کا بیان کب جاری کریں گے؟

اس سوال کے جواب کی تلاش میں عوام ایک دہائی سے سرگرداں ہیں، اور شاید ایسے ہی رہیں گے، کیونکہ ہم نے مذمت سے آگے کچھ کرنا جو نہیں ہے۔

میمونہ رضا نقوی

میمونہ نقوی ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Malik USA May 14, 2015 12:02am
I wish those who have the power to do something for poor and ordinary people have time to read your article. Their all activities are going on smoothly like foreign trip/business trip education jobs inside or outside the country. Every thing is going so smoothly why they are going to bother for this ordinary people.
patriot May 14, 2015 04:31am
You have spoken of my heart maimoona.This good 4 nothing govt headed by a heartless man NS and the military are the shadow of the same tree CACTUS that grows in HELL. O ,LORD have mercy and forgive us.
عثمان May 14, 2015 02:12pm
سیاستدان کے لئے یہی تو ایک آسان حل ہے ہر دہشتگردی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا. ویسے بھی آج کل کوئی اور مذمت کرے نا کرے سیاستدانوں اور با اثر لوگوں کا مذمت کرنا لازمی ہو گیا ہے ورنہ مخالف پارٹی اسی بات پر ہی سیاست شروع کر دیتی ہے کہ "لو جی فلاں سیاستدان نے تو اس واقع کا کوئی مذمتی بیان ہی نہیں ریکارڈ کروایا، ضرور دال میں کچھ کالا ہے " مولانا عبدلعزیز کے مذمت نہ کرنے پر بننے والی صورتحال کا تو سب کو پتا ہی ہے، اس لئے سیاستدانوں کے لئے مجرم تک پہچنے سے زیادہ اہم کام "مذمت" کرنا ہے

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024