’وقار کی جگہ ہوتا تو استعفیٰ دے دیتا‘
اسلام آباد: زمبابوے کی ٹیم آئندہ ہفتے پاکستان پہنچ رہی جو گزشتہ چھ سال میں پاکستان آنے والی پہلی ٹیسٹ ٹیم ہو گی۔
27ہزار گنجائش کے حامل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے پانچوں محدود اوورز کے لیے میچوں کے لیے ٹکٹوں کی فروخت جمعہ تک ملتوی کیے جانے کے باعث جوش و خروش اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔
ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کو ترسے ہوئے پاکستانی شائقین کی پانچوں میچوں میں بڑی تعداد میں آمد متوقع ہے اور حکام کو امید ہے کہ تمام میچز کے ٹکٹ فروخت ہو جائیں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے دورے کے لیے میچ آفیشلز بھیجے جانے کا امکان ہے جس وجہ انٹرنیشنل پلیئرز باڈی کی جانب سے سیکیورٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس دورے کا مقصد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی دیگر ٹیموں کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان کھیلنے کے لیے دوبارہ محفوظ ہے جہاں 2009 میں سری لنکن ٹیم کے حملے کے بعد کسی بھی ٹیم نے دورہ نہیں کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ میزبان ٹیم زمبابوے کے خلاف محدود اوورز کی کرکٹ میں بہتری کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔
بنگلہ دیش کے ہاتھوں ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 3-0 کے کلین سوئپ کی خفت برداشت کرے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں بھی اب تک اپنی بدترین نویں پوزیشن پر پہنچ گئی۔
قومی ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نے کہا کہ بے شک تمام تر توجہ سیکیورٹی مسائل کے بغیر کرکٹ سیریز کے انعقاد پر مرکوز ہو گی لیکن بنگلہ دیش کے خلاف شکست کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔
’پاکستان کو اپنے وطن کے شائقین کے سامنے اس طرح کی کارکردگی دہرانی نہیں چاہیے‘۔
عالمی رینکنگ میں اس تنزلی کے بعد پاکستان کی 2017 کی چیمپیئنزٹرافی میں شرکت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے جہاں عالمی رینکنگ کی ابتدائی آٹھ ٹیمیں نبرد آزما ہوتی ہیں۔
ورلڈ کپ کے بعد مصباح الحق اور شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ اور تجربہ کار یونس خان کو بنگلہ دیش کے خلاف سیریز کیلئے آرام کرائے جانے کے سبب پاکستانی ٹیم اس وقت تعمیر نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔
راشد لطیف نے اظہر علی کو قومی ٹیم کا کپتان بنانے کے فیصلے پر تنقید کی اور بنگلہ دیش کے خلاف سنچری بھی انہیں متاثر نہ کر سکی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک جارح مزاج کپتان کی ضرورت ہے جو اچھے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ بیٹنگ کر سکے، اور اظہر یقیناً ان میں سے نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں کھلاڑیوں کی انجریز بھی قومی ٹیم کی حکمت عملی اثر انداز ہوئی اور کزشتہ ہفتے چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کھلاڑیوں کی فٹنس دنیا میں سے سے بدتر قرار دی۔
راشد لطیف نے قومی ٹیم کے کوچ وقار یونس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جن کی زیر قیادت پاکستان کو اپنی پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم اور اس کی کی سرزمین پر کھیلی گئی سیریز شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں وقار کی جگہ ہوتا تو بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اس کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتا۔
’پاکستان کو ایک مقامی کوچ کی ضرورت ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ کے کھلاڑیوں سے واقف ہوں، وقار کی طرح نہیں جو شاید ہی جانتے ہوں کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کون سا کھلاڑی کارکردگی دکھا رہا ہے‘۔