• KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm
  • KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm

اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ

شائع June 18, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.


اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تیسری سہ ماہی رپورٹ -- ایک مختصر جائزہ


اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی تیسری سہ ماہی رپورٹ 13 جون بروز جمعرات شائع کی- اس رپورٹ کا تعلق سابقہ حکومت کی کارکردگی سے ہے جو مایوس کن رہی ہے- اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مارچ تا جولائی 2013 میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی سطح 2002 کے بعد سے کم ترین تھی-

رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو نظر ثانی شدہ ہدف کے مطابق 043۔ 2 بلین روپیے جمع کرنا تھے- لیکن مارچ 2013 تک صرف 335۔1 بلین روپے جمع کئے گئے جو نظر ثانی شدہ ہدف کا 65.6 فی صد ہے-

اسٹیٹ بینک نے اس مایوس کن کارکردگی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اسکی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ نیشنل اسمبلی نے دسمبر 2012 میں ایمنیسٹی بل مسترد کردیا- اس بل کا تعلق براہ راست ٹیکسوں کی وصولیابی سے تھا اور اس بل میں اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ اگر ٹیکس نہ دینے والے افراد ایف بی آر میں خود کو رجسٹر کروالیں تو ایسی صورت میں نہ تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی تحقیقات کی جائیں گی-

توقع یہ تھی کہ اس بل کے منظور ہونے کی صورت میں مزید اکتیس لاکھ افراد ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائینگے جس سے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں 150 بلین روپوں کا اضافہ ہوگا- لیکن بل مسترد کر دیا گیا-

اسٹیٹ بینک نے دوسری وجہ یہ بتائی ہے کہ صنعت کاروں کے دباؤ کی وجہ سے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کر دی گئی جو براہ راست ٹیکسوں کے 60 فی صد حصّہ پر مشتمل ہے- یہی نہیں بلکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بھی چھوٹ دی گئی (0.5 فی صد)- نیز خام مال کی درآمدات کو بھی ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا جسکی شرح ایک فی صد سے لیکر تین فی صد تک تھی-

سیلز ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقم بھی کم تھی- اسکی ایک وجہ تو یہ تھی کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فی صد کی کمی کر دی گئی اوراس کے علاوہ چائے پر بھی ٹیکس میں چھوٹ دی گئی- نیز سترہ سروسز (ٹیلی کوم سمیت) پر ٹیکس کی وصولیابی کو پنجاب ریوینو اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا- جس کی وجہ سے وفاق کو پہلے نو ماہ میں 28.3 بلین روپے کا نقصان ہوا-

ایک اور وجہ یہ بھی رہی کہ ریبیٹ کیلئے سی این آئی سی کی شرط ختم کر دی گئی اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر رجسٹرڈ افراد کے ساتھ ساتھ غیر رجسٹرڈ افراد کو بھی ٹیکسوں کی چھوٹ دے دی گئی- اسٹیل اسکریپ اور ردی کاغذ کے معاملے میں بھی یہی کچھ کیا گیا- پٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات میں بھی ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کےلئے بدعنوانیاں کی گئیں-

اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں چند مثبت پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے- مثلاً افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ شعبہ نے بھی ترقی کی- جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بینکوں نے نجی شعبے کو قرضے دئے- اسکے علاوہ چینی، پٹرولیم، سیمنٹ، کیمیائی کھاد اور کاٹن یارن کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا-

جہاں تک زراعت کے شعبے کا تعلق ہے تو سیلاب کی وجہ سے اسے خراب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا- بہ حیثیت مجموعی جی ڈی پی کی شرح مالیاتی سال 2013 میں 6۔3 فی صد رہی جبکہ گزشتہ سال یہ شرح 42 .4 فی صد تھی-

بینک نے بگڑتی ہوئی مالیاتی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی ایک وجہ سبسڈیز میں غیر معمولی اضافہ کو بیان کیا ہے یعنی پہلی تین سہ ماہیوں میں جو سبسڈیز دی گئیں، ان کا حجم پورے سال سے بھی زیادہ تھا-

دوسری وجہ سود کی بڑھتی ہوئی شرح ہے- قرضوں کی مد میں جو رقم ادا کی گئی وہ ترقیاتی مصارف سے بھی زیادہ تھی- سبسڈیز اور قرضوں کی ادائیگی پر جو رقم صرف کی گئی وہ رواں مصارف کے 40 فی صد حصّہ پر مشتمل تھی-

حکومت کی کوالیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کی مد میں 8 .1 بلین ڈالر کی رقم ملی- اس کے علاوہ صوبوں سے حاصل ہونے والی اضافی رقم سے نو ماہ کے خسارے کو رواں سطح پر برقرار رکھنا ممکن ہوا-

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پورے مالیاتی سال کے لئے بجٹ خسارہ کی شرح 7 سے لے کر 7.5 فی صد تک ہو سکتی ہے جسکی وجہ سبسڈیز کا دباؤ، سود کی ادائیگی اور ریوینو میں کمی ہے- رپورٹ کے مطابق رواں مالیاتی سال کی ابتدائی تین سہ ماہیوں کے دوران بھی بجٹ خسارہ گزشتہ سال کی طرح جی ڈی پی کا 5 .4 فی صد رہا-

وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقرر میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ 2013 کے مالیاتی سال میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا لگ بھگ 8.8 فی صد رہیگا- یعنی آخری سہ ماہی میں یہ 5. 4 فی صد کے بجائے 8.8 فی صد ہوجائیگا، یعنی تقریبا دگنا-

ان حالات میں کہ حکومت کو نہ تو سی ایس ایف کی مد میں مزید رقم حاصل کرنے کی توقع تھی اور نہ ہی بیرونی وسائل سے سرمایہ حاصل کرنا ممکن تھا- لہٰذا اسے ملکی بینکوں سے قرضہ لینا پڑا جو مارچ 2013 کے اواخر تک 13.9 ٹریلین روپے کی حد تک پہنچ گئے تھے جبکہ 2005 کے قانون کے مطابق لازم ہے کہ جی ڈی پی اور سرکاری قرضوں کا تناسب 60 فی صد رہے جسے حاصل کرنے میں حکومت ناکام رہی-

اسٹیٹ بینک بارہا اس جانب توجہ دلاتا رہا ہے کہ قرضوں کی مد میں اضافہ کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بھی بڑھتا جاتا ہے جسکے نتیجے میں قرضوں اور خسارے کا ایک نہ ٹوٹنے والا چکر بن جاتا ہے-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 اپریل 2025
کارٹون : 6 اپریل 2025