پکوان کہانی: کڑھی
ہم سب کو ہی کڑھی دل و جان سے پسند ہے، اور پاکستان اور ہندوستان، دونوں ہی ملکوں کے گھرانوں میں امی، نانی، دادی، خالہ، یا پھوپھی میں سے کسی ایک کو تو ضرور سب سے اچھی کڑھی بنانی آتی ہی ہے۔
جب بھی ہم فیصل آباد جاتے ہیں، یا انجم خالہ کراچی آتی ہیں، تو ہم ان کے ہاتھوں کی بہترین کڑھی مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ کڑھی، چاول، شامی کباب، کچومر (باریک کٹی ہوئی پیاز، ٹماٹر، اور ہری مرچ کا سلاد)، اچار، اور چٹنی۔ یہ کھانا کسی دعوت سے کم نہیں ہوتا۔
بیسن اور دہی سے بننے والے اس لذیذ سالن کے درمیان موجود پکوڑے اس کا لطف دوبالا کر دیتے ہیں۔
راجستھانی، مارواڑی، گجراتی، سندھی، اور پنجابی، سب ہی اپنے اپنے مخصوص ذائقوں کی کڑھی بناتے ہیں۔ ان تمام میں رنگت اور ذائقوں کا تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے، لیکن بنیادی اجزاء ایک ہی رہتے ہیں۔ پکوڑے کبھی ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی نہیں بھی ہوتے۔
ویسے تو کڑھی ایک راجستھانی پکوان ہے، لیکن راجستھان کے قریب واقع دیگر علاقوں نے بھی اس کو اپنایا۔
راجستھانی پکوانوں پر پانی کی کمی اور آس پاس کی بے آب و گیاہ زمین کا کافی اثر پڑا ہے۔ یہ خطہ قحط زدہ ہے، لیکن یہاں زبردست ثقافتی ورثہ موجود ہے، اور یہاں کے زندہ دل لوگوں نے اپنے آپ کو ان حالات کے مطابق ڈھال لیا، جس سے ایک ایسی ڈش نے جنم لیا جو برِصغیر کے ذائقوں میں ایک منفرد اضافہ ہے۔
کیونکہ راجستھان میں پانی کی کمی ہے، اس لیے غذا میں دودھ، دہی، یا گھی کا کافی استعمال ہوتا ہے، اور اسی لیے راجستھانی کھانے اپنے آپ میں الگ ہی رنگ رکھتے ہیں۔ پانی اور سبزیوں کو عام طور پر ڈیری سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
مارواڑی پکوان زیادہ تر ویجیٹیرین (بغیر تازہ سبزیوں کے) ہوتے ہیں، اور ان میں رنگ رنگ کے اور طرح طرح کے کھانوں کی ورائیٹی موجود ہے۔ ان کھانوں میں خطے اور اس کی تاریخ کا عکس جھلکتا ہے۔ پچھلے دور کے صحرائی لوگوں نے اس کھانے کی ارتقاء میں بہت مدد دی ہے، کیونکہ انہیں ایسے کھانے کی ضرورت تھی، جو کئی دنوں تک بغیر خراب ہوئے باقی رہ سکتا، اور جسے گرم کیے بغیر بھی آسانی سے کھایا جا سکتا۔
راجستھان کے صحراؤں میں دالوں، بیسن، اور مقامی پودوں سے حاصل شدہ پھلیوں کا استعمال کھانوں میں کافی زیادہ کیا جاتا تھا، اس لیے کڑھی کی ارتقاء لازم تھی۔ پڑوسی ریاستوں پنجاب، گجرات، اور ہریانہ نے راجستھان سے بیسن کڑھی پکوڑے کو اپنایا، اور اسے اپنی ذائقے دیے۔
پنجابی کڑھی (بغیر گڑ کے) گاڑھی ہوتی ہے، اور پکوڑوں کے بیسن میں آلو اور پالک بھی ڈالے جاتے ہیں، جبکہ دہی میں پیاز۔ گجراتی کڑھی عام طور پر بغیر پکوڑوں کے ہوتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام ذائقے ہی بہت لذیذ ہوتے ہیں، اور ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ بہت مزہ دیتے ہیں۔
ہم کڑھی میں تیز مرچوں کے عادی بھی ہیں، لیکن برِصغیر کی اصلی کڑھی میں مرچیں نہیں ہوا کرتی تھیں، کیونکہ لال مرچیں اس خطے میں مقامی طور پر نہیں پائی جاتیں۔
پکوانوں کے مؤرخ جیمز ٹریگر اپنی کتاب The Enriched, Fortified, Concentrated, Country-Fresh, Lip-smacking, Finger-licking, International, Unexpurgated Foodbook میں لکھتے ہیں:
"پانچویں صدی قبلِ مسیح کی تہذیب موئن جو دڑو کے لوگ دھوپ میں سکھائے ہوئے سرسوں کے بیج، سویا، زیرے، اور املی کو اچھی طرح پیس کر سالن کے لیے استعمال کرتے تھے۔"
کے ٹی اچایا کی رائے میں:
"کڑھی لفظ جنوبی ہندوستان کی بولی تامل کا ہے، اور اگر بہت پہلے نہیں، تو 1500 قبلِ مسیح میں بھی استعمال ہوا کرتا تھا۔
"کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ دہی والی کڑھی جنوب مغربی ہندوستان سے تعلق رکھتی ہے، اور 'برٹش کری' اس سے ہی نکلی ہے۔ برطانوی اس مصالحے دار کھانے سے جنوبی ہندوستان کے کھانوں سے پہلے واقف ہوئے ہوں گے، کیونکہ وہ ہندوستان میں 17 ویں صدی کی شروعات میں جنوب مغربی شہر سورت سے داخل ہوئے تھے، اور اس لیے کڑھی ہی برطانوی کری ہے۔"
جب میں نے کڑھی بنانی چاہی، تو میں نے انجم خالہ کی ترکیب استعمال کی۔ یہ 19 ویں صدی کے وسط کی پنجابی خاندانی ترکیب ہے۔ اور اسے کھاتے ہیں میرے منہ سے الفاظ نکلے "یہ میری کھائی ہوئی اب تک کی سب سے بہترین کڑھی ہے۔"
پنجابی کڑھی
اجزاء 1 (شوربے کے لیے)
1 کلو دہی (2 سے 3 گلاس پانی ڈال کر پھینٹ لیں)
1 کپ بیسن، (ایک سے دو کپ پانی ڈال کر پھینٹ لیں، اور پھر چھلنی کے ذریعے دہی میں ڈال کر اچھی طرح ملا لیں)
2 درمیانی پیاز، موٹی کٹی ہوئی
1 چمچ ادرک
1 چمک لہسن
ڈیڑھ چمچ ہلدی
نمک حسبِ ذائقہ
1 چمچ لال مرچ پاؤڈر
اجزاء 2 (پکوڑوں کے لیے)
1 کپ بیسن
1 ہری مرچ، کٹی ہوئی
4 چمچ کٹی ہوئی پالک
1 درمیانے سائز کا آلو، چھوٹے ٹکڑوں میں کٹا ہوا
3 چمچ کٹا ہوا دھنیا
نمک حسبِ ذائقہ
لال مرچ پاؤڈر حسبِ ذائقہ
آدھا چمچ اجوائن، آدھا چمچ دھنیے کے بیج، 1 چمچ زیرہ (بھنا اور باریک پسا ہوا)
آدھے سے ایک چمچ بیکنگ پاؤڈر
اجزاء 3 (بگھار)
تیل
کٹی ہوئی پیاز
سوکھی ہوئی لال مرچیں
کڑی پتہ
طریقہ
اجزاء 1 کو اچھی طرح مکس کر کے ابال لیں، اور اس دوران چمچ چلاتے رہیں۔ 3 سے ساڑھے 3 گھنٹے تک درمیانی آنچ پر پکنے دیں، اور جب کڑھی گاڑھی ہونے لگے تو پانی بھی ڈالتے رہیں تاکہ پتلی رہے۔ کڑھی میں بیسن جمنے سے بچانے کے لیے چمچ چلانا ضروری ہے۔
اجزاء 2 کو مکس کریں۔ پکوڑے تلیں، اور آگ بند کر کے دہی میں شامل کریں۔ بگھار ڈالیں، اور ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ پیش کریں۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری
مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں