ملاوٹ کا سدباب کس کی ذمہ داری؟
”اف!! کیسی قوم ہیں ہم!“۔ میرے شوہر نے جھنجھلا کر ٹی وی کا ریموٹ زور سے پٹخا۔ میں نے اپنی کتاب کی اوٹ سے بغور انہیں دیکھا اور پھر اگلی نظر ٹی وی اسکرین پر ڈالی جہاں ایک کرائم انویسٹیگیشن (جرائم کی نشاندہی کرنے والا) پروگرام چل رہا تھا۔ پروگرام میں کراچی کے ایک علاقے میں مرغی کی انتڑیوں اور آلائشوں سے تیل بنانے کا انکشاف کیا جا رہا تھا۔
”اس پر ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں! یہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔“ غصّے سے لال چہرہ لیے انہوں نے مزید کہا۔ میں نے ایک نظر ان پر ڈالی اور گہرا سانس لے کر کتاب بند کر دی۔
میڈیا کے مختلف چینلز پر آج کل ایسے کئی شوز دکھائے جا رہے ہیں جن میں مختلف شہروں کے مختلف حصوں میں ہونے والے گھناؤنے اور بھیانک جرائم کا پردہ فاش کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں اور بچیوں کی فروخت، عطائی اور جعلی ڈاکٹروں اور کلینکس کو پرمٹ جاری کرنا، واشنگ پاؤڈر سے دودھ بنانا، جعلی موٹر آئل کی تیاری، ذبیحہ جانوروں کا وزن بڑھانے کے لیے ان میں پانی بھرنے سے لے کر گندے نالوں کے پانی سے سبزیاں اگانے، فحاشی کے کاروبار چلانے، غیر قانونی کاروبار کے لیے پولیس کی سرپرستی اور اندھے کا ڈرائیونگ لائسنس بنانے تک سینکڑوں بھیانک اور سنگین جرائم کی کہانیاں ناظرین کو دکھائی جا چکی ہیں۔
ہر ہفتے ایسے پروگرام مختلف چینلز پر عوام کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں اور دوران پروگرام تمام ناظرین دل اور زبان دونوں سے ہی ایسے جرائم میں ملوث افراد کو برا بھلا کہتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور پھر بیک آواز حسرت و بے بسی سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آخر اس قوم کو ہو کیا گیا ہے۔
یہی افسوس پروگرام کے چند دن بعد تک جاری رہتا ہے اور ہم مختلف حلقوں میں، لوگوں اور شناساؤں کے ساتھ اس موضوع اور پروگرام پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ چند ہی دن بعد ہم بآسانی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے پچھلے ہفتے کس جرم کو سرزد ہوتے دیکھا تھا۔
بلاشبہ یہ جرائم نہایت گھناؤنے، کریہہ اور غلط ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ غلط ہے ہماری خاموشی۔ ان جرائم کو پس پشت ڈال دینے اور فراموش کر دینے کی ہماری روش، ان جرائم کے خلاف آواز اٹھانے اور ان کو بند کروانے میں ہماری عدم دلچسپی۔
ہمارے میڈیا چینلز جس ذمہ داری کے ساتھ ان جرائم کو فاش کرنے میں، اور ان میں ملوث افراد کو سامنے لانے میں مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کا فالو اپ کرنے اور جرائم کے سامنے آنے کے بعد کیا ہوا، یہ دکھانے میں اتنی ہی سستی کرتے ہیں۔ اور جو اکاّ دکاّ پروگرام اس ضمن میں کسی چینل پر نظر آ بھی جاتا ہے، تو متعلقہ حکومتی ادارے اس بارے میں ضروری کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے!
کیا صرف جرم کے بارے میں آگاہ کر دینے سے جرم ختم ہو جاتا ہے؟ اگر نہیں، تو اسے کیسے ختم کیا جائے؟ اگر بین الاقوامی طور پر دیکھا جائے تو اوّل تو ایسے جرائم قانون کے شکنجے سے ہی نہیں بچ پاتے، اور اگر کہیں کمی رہ بھی جائے تو انجمنِ صارفین، دیگر عوامی و فلاحی ادارے بشمول میڈیا اس وقت تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک معاملہ جڑ سے نہ ختم ہو جائے اور اس میں ملوّث افراد اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ جائیں۔ ہمیں بھی ایسے ہی کچھ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سب سے اہم عوامی شعور کی بیداری ہے۔
دودھ میں کتنی ملاوٹ ہے، یہ جاننے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود بھی ہم وہ دودھ کیوں خریدتے ہیں؟ بیکریوں پر تیار ہونے والی اشیاء میں موجود گندگی کتنی بار ٹی وی پر دکھائی جا چکی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر کوئی یہ اشیاء خریدتا دکھائی دیتا ہے۔ شاید اکثریت اس بات کا جواب یوں دے کہ ان کی قوت خرید انہی سستی اشیاء کی خریداری کی متحمّل ہو سکتی ہے، لہٰذا وہ مجبور ہیں کہ ایسی ناقص چیزیں خریدیں۔ تو پھر میرا سوال ایسے لوگوں سے یہ ہو گا کہ کیا کل زہر سسستا ملنے لگا تو ہم زہر خریدنے لگیں گے؟ سڑکوں پر بکنے والے طرح طرح کے کھانے بھی تو زہر ہی ہیں۔ کیا ہم سستے اور چٹخارے کے چکر میں کہیں زہر ہی تو نہیں کھا رہے؟
بات صرف اتنی ہے کہ ہم ایسے جرائم کو دیکھتے ہوئے بھی انہیں جرم ماننے پر تیاّر نہیں ہیں۔ ہم اسے انسانیت کا قتل نہیں سمجھتے، تبھی تو محض دیکھ کر اور سن کر خاموش ہو جاتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ آواز اٹھانے سے کچھ نہیں ہو گا اور کچھ دن میں بھول جاتے ہیں۔ پھر جا کر وہی چیزیں خرید لیتے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ یار ہم پاکستانی عادی ہیں ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔
یہ جرائم معمولی نہیں بلکہ قتل، ڈاکے اور دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کے مساوی ہیں، ان سے بھی معاشرے کو اتنا ہی زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ اور دراصل یہی وہ عوامی شعور ہے جسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوچ ہے جسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف جرائم کی نشاندہی کر دینے یا چند پروگرام کر دینے سے ہم اس سوچ کو چونکا تو سکتے ہیں، تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ سوچ تب بدلے گی جب ہم میں سے ہر شخص، ہر انسان، ہر ناظر ان جرائم کے خاتمے کو اپنی ترجیح بنا لے گا۔ جب ہم نہ صرف ان جرائم کو برا سمجھیں گے بلکہ انہیں جڑ سے ختم کرنے کے لیے حتیٰ الامکان جدوجہد بھی کریں گے۔
اس ضمن میں میڈیا چینلز اور سماجی ادارے مل کر ایک باقاعدہ مہم چلا سکتے ہیں جن میں عوام سوشل میڈیا اور سوشل ویب سائٹس کے ذریعے حکومت اور ذمہ دار اداروں پر زور ڈال سکے۔ اس طرح ایسے جرائم کی پردہ پوشی کرنے والے عناصر کو ہر فورم پر بے نقاب کیا جا سکتا ہے تاکہ عوام اور حکومت تک یہ بات پہنچے اور زبان زد خاص و عام ہو۔
جرائم کی نشاندہی کے بعد ایسے فالو اپ پروگرام تیار کیے جائیں جو متعلقہ اداروں کی فرض شناسی یا بد دیانتی کی رپورٹ عوام کے سامنے لائیں اور اس کے بعد عوام کی مدد سے ایک بھرپور ایکشن پلان بنایا جا سکے۔ میڈیا چینلز کو چاہیے کہ وہ ان جرائم کی روک تھام میں اپنا کردار کھل کر ادا کریں اور مسائل کو محض عوام کے سامنے لانے کے بعد کسی اور موضوع پر نیا پروگرام کرنے کے بجائے ان کے خلاف ایکشن لیے جانے تک ان پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
اس طرح بھولنے کی بیماری کی شکار ہماری قوم کو شاید کوئی بات دیر تک یاد رہ جائے، اور ہم کم از کم مضرِ صحت چیز تو خریدنا بند کریں۔
تبصرے (6) بند ہیں