ہندوستان: روزانہ 2 ہزار لڑکیوں کا قتل
نئی دہلی: ہندوستان کی وزیر برائے خواتین اور بچوں کی نشوونما، مونیکا گاندھی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بیٹوں کو ترجیح دیے جانے کی وجہ سے روزانہ دو ہزار لڑکیاں ’’قتل‘‘ کردی جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر کو اسقاطِ حمل کے ذریعے، یا پھر پیدائش کے فوراً بعد قتل کردیا جاتا ہے۔
پیدائش سے قبل بچے کی صنف کا تعین کرنے کے لیے الٹراساؤنڈ ٹیسٹ پر پابندی کے باوجود لڑکیوں کی صنف معلوم کرکے انہیں اسقاط حمل کے ذریعے ہلاک کرنا ہندوستان کے بہت سے حصوں میں ایک عام سی بات ہے۔ جس کے نتیجے میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مونیکا گاندھی نے این ڈی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ’’ہمارے ہاں دو ہزار لڑکیوں کو روزانہ ماں کی کوکھ میں مار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ پیدا ہوجاتی ہیں، تو ان کے چہرے پر تکیہ رکھ کر ان کا دم گھونٹ کر ہلاک کیا جاتا ہے۔‘‘
ہندوستان کی 2011ء کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوکہ مرد و خواتین کے تناسب میں ایک دہائی پہلے کی گئی مردم شماری کے مقابلے میں مجموعی طور پر معمولی بہتری آئی ہے، تاہم لڑکوں کے مقابلے میں کافی حد تک کم لڑکیاں پیدا ہوئیں، اور چھ سال کی عمر کی لڑکیوں کی تعداد پچھلی پانچ دہائیوں کے مقابلے میں انتہائی کم رہ گئی ہے۔
برطانوی طبی جرنل لینسیٹ کی جانب سے مئی 2011ء میں کیے گئے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لڑکیاں پچھلی تین دہائیوں میں اسقاط حمل کے ذریعے مار دی گئیں، جس کے نتیجے میں 2011ء میں صنفی تناسب ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 918 تک گرگئی ہے، یہ تناسب 1981ء میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 962 لڑکیاں تھا۔
ہندوستان میں مردوں کے غلبے کی روایتی ثقافت رائج ہے، جس کے تحت بیٹوں کو بطور اثاثہ اور روزی کمانے والا سمجھا جاتا ہے، جو خاندان کو کما کر کھلاتے ہیں، خاندان کا نام آگے بڑھاتے ہیں، اور اپنے والدین کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں، جو بہت سے مذاہب میں ایک اہم رسم سمجھی جاتی ہے۔
لڑکیوں کو ہندوستان میں ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن کے لیے خاندان کو بھاری جہیز اکھٹا کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے لیے حسبِ خواہش رشتہ مل سکے۔
ایک ایسی ثقافت میں جہاں شادی سے پہلے جنسی تعلق لڑکی کے خاندان کی بدنامی کا باعث بنتاہو، والدین ان کی حفاظت کے لیے پریشان رہتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں