افغانستان: داعش کا خود کش حملہ، طالبان کی مذمت
پشاور: پاکستان میں ہونے والے گزشتہ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی تنطیم جماعت الاحرار نے مشرقی افغان صوبہ ننگرہار میں خود کش حملے کی مذمت کی ہے۔
حملے میں 33 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ’’عوامی جگہوں پر خود کش بم دھماکے کرنے والے نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق ہے، یہ مجاہدین کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ‘‘
خیبر ایجنسی میں موجود لشکرِ اسلام نامی عسکریت پسند گروپ نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
دہشت گرد جماعتوں کی جانب سے دیئے گئے بیانات پرسیکیورٹی حکام نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’ جو کالعدم جماعتیں اس سے قبل پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری فوری قبول کرتی رہی ہیں ان کا اس حملے کی مذمت کرنا باعث حیرت ہے۔ کیا اب وہ اپنی آخری پناہ گاہ کے چھین جانے سے ڈر تے ہیں؟"
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ایک خود ساختہ اسلامی ریاست(داعش) جس نے جلال آباد میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی، پاکستان میں موجود دہشت گرد جماعتوں کی حمایتی ہے، اپنے حمایتی کے عمل کی مذمت کرنے پر حیرت ہے۔‘‘
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے بدخشاں کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ’’ننگر ہار میں آج ہونے والے خوفناک دھماکے کی ذمہ داری کس نے قبول کی؟ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، بلکہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے‘‘۔
گزشتہ سال نومبر میں داعش نے سابق افغان جہادی کمانڈر مسلم دوست کو خراسان بیلٹ کا امیر مقرر کیا تھا۔
یہ بھی خیال رہے کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جون کیمپ بیل نے ٹائمز نیوز کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ برائے عراق و شام (داعش) پاکستان اور افغانستان میں بھرتیاں کر رہی ہے۔
جنرل کیمپ بیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ داعش افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ نہیں بڑھا سکتی تاہم پڑوسی ملک پاکستان میں اپنا پیغام پھیلانے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرنے والے شدت پسند تنظیم داعش یا الدولۃ الاسلامیہ نے گزشتہ سال جون کے مہینے میں خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں