موسمیاتی تبدیلیوں سے گندم کی کاشت متاثر
پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت میں لاکھوں کسان بے موسم کی شدید بارشوں کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں، جو ان کی فصلوں کو تباہ کررہی ہے، کچھ کسانوں نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے اپنے طور پر منصوبہ بندی کی ہے۔
پاکستان کے پہاڑی علاقے گلگت بلتستان کی وادی تھوئی کے ایک کسان محمد نگین موسمیاتی تبدیلی کی اصطلاح سے واقف نہیں۔ لیکن بے موسم برستی شدید بارشوں سے ضرور واقف ہیں جس نے انہیں اناج کی کاشت کے بجائے آلو اور پیاز کاشت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین سیمیناروں میں، کمروں میں بیٹھ کر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ''کیوں اور کیسے'' پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ بے موسم برستی شدید بارشیں پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت پر ٹوٹ پڑی ہیں اور نمایاں طور پر ہوتی ہوئی خوراک کی پیداوار میں کمی کے خوف کی طرف لے جارہی ہے۔ نتیجتاً نگین جیسے کسان خود اپنے لیے بچاؤ کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے بالائی علاقے کی پہاڑی گھاٹیوں میں ایک واحد فصل کی بوائی کا موسم سخت موسم سرما کے فوراً بعد ہی شروع ہوجاتا ہے۔ مگر اس سال نگین نے کچھ مختلف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گندم کی فصل اس کی روزی کا ذریعہ بھی ہے، اور گھر کی خوراک اور جانوروں کے چارے کا انحصار بھی اسی فصل پر ہے، مگر بارش کے انداز میں تبدیلی کے باعث کافی عرصے سے گندم کی فصل ضائع ہورہی ہے۔ چنانچہ اب اس نے اپنا رخ آلو اور پیاز کی فصل کی طرف کر لیا ہے۔
پڑھیے: پاکستانی کسان اور بارش کی آس
اس کے خیال میں یہ فصلیں ذیادہ مستحکم ہیں۔ اسے اب پکا یقین ہوگیا ہے کہ گندم کی فصل سے زیادہ منافع نہیں ملے گا۔ وہ اپنی 20 ایکڑ زرخیز زمین کو طویل مدت کے لیے باغات میں تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ہر سال اگست کے آخر یا ستمبر کے اوائل میں گندم کی تیار فصل کو جزوی یا کلی طور پر موسلادھار بارش کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے کھڑی فصلیں تیز ہواؤں کی وجہ سے گر جاتی ہیں، پھر دانے پھول جاتے ہیں، اور بالآخر نمی کی وجہ سے بیکار ہو جاتے ہیں۔
‘میرے پاس آلو اور پیاز اگا کر مارکیٹ میں فروخت کر کے بدلے میں گندم خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ان وادیوں میں گندم بونا اب بے فائدہ ہے۔ نگین نے کہا کہ گندم کی فصل اب گھٹ کر کے صرف کچرا رہ گئی ہے۔
ماہرین کے خیال میں یہ موسمیاتی تبدیلی کا ایک حصہ ہے جو دریائے سندھ کے اوپری علاقے کو متاثر کررہی ہے۔ برف باری مارچ کے آغاز تک جاری رہتی ہے جبکہ سخت سردی ستمبر کے وسط میں پڑتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں گندم اگانے کے لیے کم از کم پانچ ماہ لگتے ہیں۔
نگین کی طرح ہی بہت سے دوسرے کسان بھی اس بات پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں کہ بدلتے ہوئے حالات کو کس طرح سے اپنایا جائے۔ علاقے کے سینکڑوں کسان گندم کی کاشت سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ناگہانی بارشوں کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات سے بچنے کے لیے خوبانی، بادام اور سیب کے باغات اگانے شروع کر دیے ہیں۔
بارکلتی گاؤں کے ہمایوں خان فصل کی کٹائی کے موسم کے دوران پڑنے والے اولوں اور تیز بارش کی وجہ سے متاثر ہونے والے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دو کھیتوں میں خوبانی اور چیری کے درخت لگائے ہیں، جبکہ پہلے وہ ان دو کھیتوں میں گندم اگایا کرتے تھے۔ تیسرے کھیت میں انہوں نے آلو اگائے ہیں جو بارشوں میں بھی جمے رہتے ہیں اور ان کی مارکیٹ میں قیمت بھی اچھی ملتی ہے۔ املچت گاؤں کے اشرف ولی بھی انہی حالات کے شکار ہیں۔ ماضی کی طرح کی ضمانت اب موجود نہیں رہی، لوگ فصل بونے کے معاملے میں اب غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔
ماہرانہ رائے
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر بابر شہباز کے مطابق گذشتہ 8 سے 10 سالوں میں موسموں میں تیزی سے تغیر آیا ہے اور زرعی شعبے پر اس کے خاصے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ موسم سرما اور موسم گرما کے اوقات میں اہم تبدیلیاں آچکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں کا دورانیہ اور شدت بھی بدل چکی ہے، اور فصلوں پر ان کے منفی اثرات پڑے ہیں۔
مزید پڑھیے: کسان کے مددگار ڈرون
شہباز نے بتایا کہ حکومت نے کسانوں کی حفاظت کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا ہے، نہ ہی کوئی نئی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے، اور نہ ہی بدلتے ہوئے منظر نامے سے نمٹنے کے لیے بیجوں کی نئی اقسام فراہم کی ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ صوبائی حکومتوں کو کسانوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں اور انہیں تیار کرنا چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کس طرح سے کریں۔
محکمہ موسمیات پاکستان کے سینئر محقق ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمالی اور مرکزی حصوں میں موسم سرما کی بارشیں اور درجہ حرارت میں اچانک اضافہ اور کمی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔
غلام رسول نے تجویز پیش کی کہ میں کسانوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ بدلتے ہوئے موسموں کو سامنے رکھ کر فصل بوائی کے اوقات کا تعین کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسانوں کو چاہیے کہ وہ فصل کی بوائی جلد شروع کریں تاکہ اسے اگست کے آخر اور ستمبر میں ہونے والی مون سون کی شدید بارشوں سے پہلے کاٹ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال صرف گلگت اور بلتستان تک ہی محدود نہیں ہے، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی کسانوں کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس سے پہلے سندھ میں مارچ میں گندم کی کٹائی کے دوران شدید بارشیں نہیں ہوتی تھیں مگر اب صورتحال مختلف ہے۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے شیر احمد کے مطابق گلگت بلتستان میں کٹائی کے موسم کے دوران غیر متوقع بارشیں عام ہوچکی ہیں، خاص طور پر دور دراز پہاڑی علاقوں غذر، اسکردو، گوجال، اشکومان اور پھندر وادیوں میں۔ گذشتہ سالوں کے دوران موسمی حالات میں ہونے والی غیر متوقع تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے لیے پیشں گوئی کرنا مشکل ہے۔ حکومت کچھ علاقوں میں بیج کی کئی اقسام فراہم کر رہی تھی جو کہ فصلوں کی جلد تیاری کے لیے مددگار تھیں۔ ان کے خیال میں بہرحال کیونکہ گندم کے مقابلے میں پھل، پیاز اور آلو کی قیمتیں مارکیٹ میں زیادہ ملتی ہیں، اس لیے کسان فصلیں بدل رہے ہیں۔
جانیے: پانی کی کمی اور پاکستان کا مستقبل
نقطہ نظر جو بھی ہو، یہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے لاکھوں کسانوں کے لیے ایک برا سال ہوسکتا ہے۔
پاکستان ایگری فورم کے چیئرپرسن ابراہیم مغل کا اندازہ ہے کہ بارشوں کی وجہ سے پیداوار آدھی رہ جانے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے tcktcktck.org کو بتایا کہ اگر بارشیں کٹائی کے وقت سے ایک ماہ پہلے یعنی اپریل سے مئی کے وسط تک بھی آئیں، تو ہمیشہ تباہ کن ہی ہوتی ہیں۔ اس سے گندم جیسی فصلوں کو ٪20 سے ٪30 کے درمیان نقصان پہنچتا ہے۔ اور اگر بارشوں کے ساتھ طوفانی ہوائیں بھی ہوں تو نقصان ٪50 تک بھی بڑھ سکتا ہے۔
بھارت میں بھی قیمتوں کو نقصان پہنچے گا۔ بے موسم کی بارشوں نے ربیع کی فصل (موسم سرما میں بوائی اور موسم بہار میں کٹائی) خاص طور پر گندم کو متاثر کیا ہے۔ حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ 62 ملین ایکڑ زیر کاشت زمین کا ٪30 حصہ بے موسم کی بارشوں سے متاثر ہوا ہے۔
— بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ