متحدہ کی پِچ پر تحریک انصاف کی بیٹنگ
پاکستانی میڈیا میں یمن پر سعودی حملے پر تبصرے ہورہے ہیں یا پھر متحدہ قومی موومنٹ کے گڑھ عزیز آباد میں 23 اپریل کو ہونے والے ضِمنی الیکشن پر۔ یمن سے تو حکومتی کوششوں کی بدولت پاکستانیوں کو بحفاظت بذریعہ پی آئی اے واپس لایا جارہا ہے، جبکہ کراچی کے حلقہ این اے 246 میں آئے روز متحدہ اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب متحدہ کے ستارے گردش میں ہیں اور آئے دن متحدہ سے مبینہ تعلق رکھنے والے ٹارگٹ کلرز گرفتار ہورہے ہیں۔ ایسے وقت میں تحریک انصاف متحدہ کی ڈولتی ڈگمگاتی اور بل کھاتی پوزیشن میں کڑا ٹاکرا دینے جارہی ہے۔
کراچی میں جاری آپریشن کے بعد متحدہ ایسے چوراہے پر آن پہنچی ہے جس پر رینجرز ناکہ لگائے بیٹھے ہیں، اور ایسی صورتحال میں متحدہ نہ تو آپریشن کو متنازع بنا کر بند کرنے کا مطالبہ کرسکتی ہے اور نہ ہی متحدہ سے اس آپریشن کے نتائج ہضم ہو رہے ہیں۔
ان حالات میں اگر تحریک انصاف متحدہ کے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنا چاہ رہی ہے تو اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کی طرح گھر کی ناقابلِ شکست ٹیم ہےاور ہندوستانی بیٹسمینوں کی طرح متحدہ کے امیدوار ہوم گراؤنڈ میں ریکارڈ بنانے کے عادی ہیں۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف کو متحدہ کی پچ پر کھیلتے ہوئے یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ متحدہ نے اپنے باؤلرز کے حساب سے پچ تیار کی ہوگی۔ لہٰذا تحریک انصاف کو متحدہ کے باؤنسرز اور گوگلیوں کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ امپائر بے شک نیوٹرل ہی کیوں نہ ہو، مگر امپائر کو ہوم گراؤنڈ کا خیال کرتے ہوئے فیصلہ دینا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ میچ سے پہلے پریکٹس سیشنز کے دوران بھی ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ کھلاڑی پرائی پچ پر متحدہ کی باؤلنگ کی تاب نا لاتے ہوئے انجریز کا شکار ہوجائیں۔
اب بات ہوجائے قومی اسمبلی کی نشست این اے 246 کی جو کہ سردار نبیل گبول کی متحدہ سے علیحدگی کے بعد خالی ہوئی تھی۔ یہاں 17 امیدواروں کے مابین 23 اپریل کو مقابلہ ہونے جارہا ہے جس میں متحدہ کے کنور نوید جمیل اور تحریک انصاف کے عمران اسماعیل سر فہرست ہیں۔
اگر اس حلقے کے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو بنا کسی شک کے یہ متحدہ کا مضبوط ترین قلعہ ہے، جہاں تحریکِ انصاف متحدہ کو چیلنج کرنے جارہی ہے۔
مئی 2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے متحدہ کے امیدوار سردار نبیل گبول 1 لاکھ 37 ہزار 874 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل 31 ہزار 875 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے۔ اس طرح دونوں امیدواروں کے درمیان فرق 1 لاکھ 6 ہزار ووٹوں کا تھا۔ جو کہ کسی بھی صورت چھوٹا مارجن نہیں ہے۔
2008 کے انتخابات میں متحدہ کے امیدوار سفیان یوسف 1 لاکھ 86 ہزار 933 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ چونکہ تحریک انصاف کی جانب سے الیکشنز کا بائیکاٹ تھا، اس لیے اس حلقے سے دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سہیل انصاری تھے جو کہ صرف 6 ہزار 741 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔
فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے انتخابات میں بھی متحدہ کے امیدوار حاجی عزیزاللہ جیتے تھے جنہیں 53 ہزار 134 ووٹ ملے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار رشید نسیم 32 ہزار 879 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
2002 کے الیکشنز سے پہلے ہونے والے الیکشنز میں حلقہ این اے 246 قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 186 اور این اے 187 پر مشتمل تھا۔ جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
این اے 186
این اے 187
2013 کے انتخابات میں خلافِ توقع تحریک انصاف کے امیدوار کو 31 ہزار یا 17 فیصد سے زائد ووٹ پڑے۔ مگر ان ووٹوں کے بل بوتے پر اگر تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ وہ آنے والے ضمنی الیکشن میں جیت سکتی ہے، تو شاید یہ اس کی بھول ہوگی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے کراچی میں ہونے والے الیکشنز کے دھاندلی زدہ ہونے اور زبردستی ووٹ ڈلوانے جیسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں اور موجودہ کشیدہ صورتحال کے پیش نظر تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کے این اے 246 کو فوج کے حوالے کیا جائے۔
اس سے پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت این اے 246 میں پولنگ کے دوران سیکیورٹی کی ذمہ داری رینجرز کو دینے کے لیے تیار ہے۔
کراچی میں ہونے والے الیکشنز پر ہمیشہ ہی سوالات اٹھاتے جاتے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی بھی متحدہ پر زبردستی ووٹ ڈلوانے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔
موجودہ حالات اور حلقے میں بڑھتی کشیدگی کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وفاقی حکومت رینجرز یا فوج کی نگرانی میں یہ الیکشنز کروائے گی۔
اگر یہ الیکشن رینجرز یا فوج کی نگرانی میں ہوتے ہیں تو امید ہے کہ الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ حالیہ کشیدگی کے بعد سارا میڈیا بھی اپنی توجہ اس حلقے پر مرکوز رکھے گا۔ جس وجہ سے کسی بھی فریق کے لیے دھاندلی ناممکن ہوجاگی۔
ضمنی الیکشن سے قبل بننے والی صورتحال میں جماعت اسلامی کی تحریک انصاف کو سپورٹ کافی اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور اگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوجاتا ہے، تو یقیناً متحدہ کے لیے یہ اتحاد پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔
متحدہ کے رہنما تو ہونے والے الیکشنز میں اپنی جیت کے لیے پر امید ہیں اور ماضی کو دیکھتے ہوئے متحدہ کی جیت ہی نظر آرہی ہے۔
مگر تحریک انصاف کے لیے ہار یا جیت دونوں ہی صورتوں میں زیادہ شرمندگی نہیں۔ اگر تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل جیت جاتے ہیں تو تحریک انصاف کراچی کی تمام سیٹوں پر ہونے والے الیکشنز کو مشکوک قرار دے دے گی۔
دوسری طرف متحدہ اس الیکشن سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے اور اسے ڈر ہے کہ اس الیکشن میں ہار سے متحدہ کی جیتی گئی تمام سیٹوں پو سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس الیکشن کے بعد کراچی کے سیاسی منظرنامے پر نئے کھلاڑی بھی ابھریں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے اور تحریکِ انصاف کامیاب ہوجاتی ہے، تو یقیناً یہ کراچی میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوگا، جو شاید متحدہ کے لیے اتنا اچھا نہ رہے۔