• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جوڈیشل کمیشن کتنا مددگار ہوگا؟

شائع April 3, 2015
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے معاہدے پر دستخط کیے جا رہے ہیں ڈان نیوز اسکرین گریب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے معاہدے پر دستخط — ڈان نیوز اسکرین گریب
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے معاہدے پر دستخط کیے جا رہے ہیں ڈان نیوز اسکرین گریب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے معاہدے پر دستخط — ڈان نیوز اسکرین گریب

بالآخر دونوں فریقوں کے درمیان جوڈیشل کمیشن قائم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ دل خوش گمان ہے کہ سیاستدانوں نے بلا کا تیر مارا ہے۔ دار الحکومت میں کئی مہینوں کے دھرنے، اور مجموعی طور پر 8 ماہ کے ہلچل بھرے شب و روز کے بعد گھی بالآخر سیدھی انگلیوں سے ہی نکلا۔

ہم بھی عجیب مزاج کے لوگ ہیں۔ میز کے گرد بیٹھ کر سیاسی پنڈت چند صفحے کالے کر دیں تو ہم پھولے نہیں سماتے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے جب میثاق جمہوریت اور نواز شریف اور آصف زرداری نے جب میثاقِ بھوربن پر دستخط کیے، تو ہم ہواؤں میں اڑنے لگے۔ اور جب زرادری صاحب نے کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے، تو ذرا پاؤں زمین پر لگے۔

اخباروں کی سرخیاں کہہ رہی ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام دونوں فریقوں کا تاریخی فیصلہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے کئی تاریخی فیصلے زنگ لگی الماریوں میں خاک تلے دبی فائلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

یہ تو معاملہ فقط بد نصیب ووٹر کا ہے جس کے نام پر یا تو سینکڑوں ووٹ ڈال دیے جاتے ہیں، یا پھر بیلٹ باکس ہی بدل جاتا ہے۔ ہم تو ملک کے دولخت ہونے پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ذمہ داروں کا تعین اول تو ہوتا ہی نہیں، اور ہو بھی جائے تو کسی کو سزا، یا دوسرے اقدامات شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔

چلیے میں دور کی کوڑی نہیں لاتی کیونکہ ماضی تو سارا داغدار ہے۔ چند عرصہ قبل ہم نے بڑی پھرتی دکھا کر سلیم شہزاد قتل کیس کی تحقیقات شروع کیں۔ بات ملک کی سرحدوں سے باہر نکلی تو ہم نے جوڈیشل کمیشن بنا دیا۔ خوش گمانی میں ہم ایک بار پھر ہواؤں میں اڑنے لگے۔ کچھ عرصہ اس کمیشن کی آنیاں جانیاں، اور گواہوں کی پھرتیاں زیرِ بحث رہیں۔ تجزیہ کاروں، صحافیوں، حتیٰ کہ ناقدوں کے قلم بھی اس کمیشن کے قصیدے لکھنے لگے۔

پھر ایک دن یوں ہوا کہ تمام امیدوں اور خوش فہمیوں کا جنازہ دھوم سے نکلا۔ فیصلہ آیا کہ تمام گواہوں اور حقائق کی روشنی میں طے یہ پایا ہے کہ حساس ادارے نہ تو شاملِ مجرم ہیں، اور نہ ہی انہیں کلی طور بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی ہم جہاں سے چلے تھے گھوم کر وہیں آ گئے۔

پچھلے چوبیس گھنٹوں سے ہمارا بھرم ہمالیہ کو چھو رہا ہے، مگر آئین یہ کہہ رہا ہے کہ 126 دن کنٹینروں، رکاوٹوں، جلسوں، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملوں، اور سیاسی جرگے کی بیٹھکوں کے بعد جو صفحات کالے ہوئے ہیں، وہ فقط ایک فریق کو ہزیمت سے، اور دوسرے کو جلسوں کے درد سر سے بچانے کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔

بنیادی طور پر معاہدے کے دو پہلو ہیں، ایک سیاسی اور دوسرا قانونی۔

قانونی اعتبار سے آرٹیکل 225 الیکشن پر سوال اٹھانے کے لیے ٹربیونلز کی راہ دکھاتا ہے، اور آئینی ترمیم کے بغیر کوئی بھی کمیشن انتخابی نتائج پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ یوں وہ کام جس کی آئین براہ راست اجازت نہیں دیتا، اس معاہدے کی رو سے اب بالواسطہ کیا جائے گا۔

سیاسی حصے کے تحت دھاندلی کی تصدیق پر وزیراعظم اسمبلی تحلیل کر دیں گے، لیکن یاد رہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت وہ اس کے پابند نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دھاندلی ثابت ہونے پر عوامی دباؤ سر اٹھا سکتا ہے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی، اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اپنی اپنی اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، لیکن کیا بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی اقتدار کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ کیا بلوچ سردار اور متحدہ قومی موومنٹ، جو ابھی سے جوڈیشل کمیشن کو غیر قانونی قرار دے رہی ہے، یہ سب ہونے دے گی؟ ایک ضمنی فکر یہ بھی ہے کہ ان 52 سینیٹرز کا کیا ہو گا جو تازہ تازہ منتخب ہو کر آئے ہیں؟

معاہدے کے مطابق تحقیقات کی تمام تر ذمہ داری کمیشن کے تین ججز کے کاندھوں پر ہوگی۔ تحقیقاتی دائرے کو کتنا پھیلانا ہے اور کتنا سمیٹنا، یہ ججز کے اختیار میں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ ان تین ججز کے پاس الہٰ دین کا کون سا چراغ ہوگا کہ وہ 45 دن میں پورے الیکشن کو اسکروٹنی سے گزار سکیں جبکہ حقائق یہ ہیں کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی مدت ملازمت صرف چار ماہ بچی ہے۔ پیش رو جسٹس جواد ایس خواجہ صرف 27 دن چیف جسٹس ہوں گے اور ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس بنیں گے اور آپ بھی 30 دسمبر 2016 کو رخصت ہو جائیں گے۔ آخر کون سا جج ہو گا جو اپنی آخری مدت میں خود کو متنازع بنائے گا؟

ایک ایسے ملک میں جہاں عدالتِ عظمیٰ میں 20،480 کیسز زیرِ التوا ہیں، وقت اور دباؤ کے تحت فوجی عدالتیں قیام میں ہیں، وہاں اعلیٰ عدلیہ کے سترہ ججز میں سے تین کو دو مہینے کے لیے مکمل طور پر اس انکوائری کے لیے وقف کر دینا کہ کسی گرینڈ ڈیزائن کے تحت دھاندلی ہوئی ہے کہ نہیں، کس حد تک مناسب ہے اور کس حد تک ممکن ہے؟

مان بھی لیا جائے کہ اگر جوڈیشل کمیشن دھاندلی ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے، اور پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق اسمبلیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں، تب بھی اگلے انتخابات میں دھاندلی کا دروازہ کھلا رہے گا کیونکہ انتخابی اصلاحات پر کام ٹھپ پڑا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ جوڈیشل کمیشن اور دھاندلی کے اس گھن چکر میں کہیں انتخابی اصلاحاتی عمل سے روگردانی نہ ہو جائے، کیونکہ انتخابی دھاندلی کی وجوہات میں سے ایک وجہ فرسودہ انتخابی نظام بھی ہے، جسے تبدیل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنا۔

کیا اس ضروری کام کی جانب بھی کسی کی توجہ ہے؟ گذشتہ 8 ماہ کی پارلیمانی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کا جواب نفی میں ہی ہے۔

مہر بخاری عباسی

مہر بخاری عباسی ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی

کی میزبان ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: meherbokhari@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

محمد ارشد قریشی (ارشی) Apr 03, 2015 06:50pm
مہر بخاری صاحبہ میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ جس کا کمیشن بنا وہ ہمیشہ کے لیئے دفن ہوگیا چاہے وہ محمود الرحمن کمیشن ہو، میمو گیٹس کمیشن یا اسی طرح کے لاکھوں کمیشن جو حقیقی کمیشن کی نظر ہوگئے ۔ اس کمیشن کی رپورٹ کسی صورت میں دھاندلی کی نہیں آئے گی اور اگر آئی بھی تو شائید اس سے پہلے مزید کئی حکومتیں الیکشن کے بعد وجود میں آچکی ہونگی یہ ایک لولی پوپ ہے جو پی ٹی آئی کے منہ میں ٹھونس دیا گیا ہے اور اب یہ اسے چوستے رہینگے لیکن یہ کبھی ختم نہیں ہوگا ۔
ارشد اقبال Apr 03, 2015 07:50pm
مسئلہ یہ نہیں کہ انتخابی دھاندلی کیلئے عدالتی کمیشن بنا یا نہیں،مسئلہ یہ ہے بلکہ اگر اس کو حقیقت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ہاں جس مسئلے کا حل نہ نکالنا ہو تو اس کیلئے کمیشن بنایا جائے،اس سے قبل سقوط ڈھاکہ،لاپتہ افراد اورایبٹ آباد میں امریکی حملہ سمیت بہت سے واقعات پر کمیشن بنے لیکن کیا بنا ؟ہماری یاد میں تو کسی کمیشن کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔اب اگر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن پر وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اتفاق ہو ہی گیا ہے تو ایک کمیشن اور سہی کے مصداق آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
Syed Muhammad Tehseen Abidi Apr 05, 2015 12:02am
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جوڈیشل کمیشن کتنا مددگار ثابت ہوگا میرے خیال میں قانونی پیچیدگیوں اور قانونی ابہام کا سہارا لیا جائے گا اور تاریخ پر تاریخ دی جائے گی اور معاملہ سرد خانے کی نظر ہوجائے گا کیونکہ پاکستانی عوام اب تک بننے والے کمیشنز کے انجام سے اچھی طرح سے آگاہ ہے باقی عالم غیب اللہ کی ذات ہے
Syed Muhammad Tehseen Abidi Apr 05, 2015 07:44pm
مہر بخاری صاحبہ آپ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ کیا اب دھاندلی والی بوگس اسمبلی پاک صاف ہوگئی ہے جو اب اسمبلی میں واپسی ہو رہی ہے کیا سیاست اسی کا نام ہے کہ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم نہ رہا جائے افسوس ہوتا ہے اس قسم کی سیاست کو دیکھ کر سیاست کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے ہر اصول پیروں تلے روند دیا جاتا ہے افسوس صد افسوس
Syed Muhammad Tehseen Abidi Apr 06, 2015 08:05pm
مہر بخاری صاحبہ عمران خان کی اسمبلی سے واپسی کو ایک اور این آر او سے تعبیر کیا جا رہا ہے بہت سے حلقوں کی طرف سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ نادیدہ حلقوں کی طرف سے عمران خان کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ آصف زرداری، نواز شریف کے بعد اگلی باری عمران خان کی ہوگی جوڈیشل کمیشن کا حشر پاکستان میں بننے والے دوسرے کمیشن کی طرح ہوگا کیونکہ اس کمیشن کی کاروائی کو طول دیا جائے گا اور عمران خان کو سیف راستہ دیا جائے گا لیکن عمران خان کا اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں میں پس پردہ سمجھوتہ ہوگیا ہے اور اب اگلی باری عمران خان کو کھیلنے کو ملے گی اسی وجہ سے آج اسمبلی میں خواجہ آصف کی نورا تنقید نے اس شک کو مزید تقویت فراہم کی ہے اسی طرح عمران خان اسمبلی پر تنقید کرکے نورا کشتی کھیلتے نظر آ رہے ہیں اگر کوئی اس قسم کا کوئی پسِ پردہ سمجھوتا ہوا ہے تو یہ پاکستانی عوام کی ایک اور بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے باقی غیب کا علم اللہ تعالی کی ذات کو ہے مہر بخاری صاحبہ آپ یہ سوالات ضرور اٹھائیں آپ کا پاکستانی عوام پر احسان ہوگا

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024