'صولت مرزا الطاف حسین سے رابطے میں تھے'
کراچی : مچھ جیل میں قید سزائے موت کے منتظر مجرم صولت مرزا کی اہلیہ نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا صولت مرزا کو جاننے سے انکار سنگین مذاق ہے، صولت مرزا کا الطاف حسین سے رابطہ تھا، گرفتاری سے قبل ان کی ایم کیو ایم کے قائد سے بات ہوتی تھی۔
پیر کی شب نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو ایک انٹرویو میں ان کاکہنا تھا کہ صولت مرزا نے کسی کے دباؤ پر یا کسی لالچ میں بیان نہیں دیا، ان کو غلط لوگوں کے ہاتھوں میں پھنس جانے کی پشیمانی ہے۔
انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارٹی اظہار لاتعلقی نہیں کرتی تو صولت مرزا کبھی منہ نہیں کھولتے، تعلق کے بہت سے ثبوت ہیں، گرفتاری سے قبل صولت مرزا الطاف حسین سے رابطے میں تھے اور گورنر سندھ سے میری بے شمار، لاتعداد مرتبہ گفتگو ہوئی۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیان کے حوالے سے صولت مرزا کی اہلیہ کا کہنا تھاک ہ جب صولت مرزا کو الطاف حسین کی جانب سے لاتعلقی کے اعلان کا بتایا گیا تو تو وہ حیران ہوگئے، یہ بات سن کر تھوڑی دیر انہوں نے زمین کی طرف دیکھا اور پھر سر اٹھایا، انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صولت مرزا کو پشیمانی تھی کہ وہ غلط لوگوں کے ہاتھ میں پھنس گئے اور انہیں نظریہ کے نام پر استعمال کر کے اچانک پھینک دیا گیا۔
ایم کیو ایم سے تعلق پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پارٹی کے ساتھ بہت گہرے روابط تھے، صولت مرزا جو کہہ رہے ہیں اس کی تحقیقات کی جائے۔
انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ صولت مرزا نے کہا کہ ان لوگوں پر اعتبار کرکے غلطی ہوگئی، اب میں ان تمام چیزوں کا کفارہ ادا کروں گا۔
صولت مرزا کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ یہ سنگین مذاق ہے کہ ایم کیو ایم صولت مرزا کو نہیں جانتی، 'میرے پاس اس حوالے سے بہت سے ثبوت ہیں، صولت مرزا جس طرح جیل میں رہتے تھے وہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ 2 فروری 2015 تک ہم نائن زیرو جاتے رہے، اس کے بعد ہمیں فون کال کر کے کہا گیا کہ ہمارا اور آپ کا رشتہ ختم ہوگیا۔ فاروق ستار نے فون کرکے کہا کہ 'اب آپ جانیں، آپ کا کام جانے، جتنا ہم نے کرنا تھا ہم نے کرلیا'، فاروق ستار کی کال کے بعد نائن زیرو کے لیے ہمیں مکا چوک سے ہی اندر نہیں جانے دیا گیا۔
صولت مرزا کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ یکم جنوری 2015 کے بعد سے قمر منصور سے زیادہ تعلق رہا، ہم سے اظہار لاتعلقی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ صولت مرزا کی بہن نے رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد ان کو ایک تھپڑ رسید کردیا تھا، اس کے بعد الزامات لگائے گئے کہ صولت مرزا 1998ء میں ایجنسی سے ایک کروڑ روپے لے کر وطن واپس آئے ۔
انہوں نے بتایا کہ فاروق ستارکا فون آیا تو تمام رابطہ کمیٹی وہاں بیٹھی تھی، اس فون کال میں ہم سے اظہارلاتعلقی کرنے کے لیے ہم پر الزامات لگائے گئے جس میں ایک الزام یہ تھا کہ صولت مرزا 1998ء میں واپس کیوں آئے؟ انہیں ایم کیو ایم نے نہیں بلایا تھا، حالانکہ انہیں پتا ہے کہ صولت مرزا کیوں اور کس کے کہنے پر پاکستان واپس آئے تھے۔
صولت مرزا کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ جیل کے اندر ایم کیو ایم کے لڑکوں کو فون کی سہولت بھی میسر تھی،صولت مرزا کی فون کالز کا ریکارڈ نکلوالیا جائے تو ان سب لوگوں کے نمبر آجائیں گے جو اس سے اظہار لاتعلقی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قمر منصور، خالد مقبول صدیقی، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر نصرت سے ہم رابطے میں تھے، جیل کے حوالے سے کوئی چھوٹی سی بھی پریشانی ہوتی تھی تو ڈاکٹر صغیر احمد، ڈاکٹر نصرت اور حیدر عباس رضوی مسائل حل کرتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں صولت مرزا کی اہلیہ نے بتایا کہ گورنر سندھ سے بے شمار، لاتعداد مرتبہ گفتگو ہوئی، اپیل مسترد ہونے کے بعد گورنر ہاؤس میں رات گئے گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات ہوئی، جس میں قمر منصور، ڈاکٹر نصرت اور عارف خان ایڈووکیٹ ہمیں لے کر گئے تھے،اسی ملاقات میں گورنرسندھ نے وکیل کی فیس پارٹی کے ذریعے دینے کا معاملہ طے کیا۔
صولت مرزا کی اہلیہ نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ صولت مرزا کو معافی مل جائے گی، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اتنے عرصے پارٹی کے ساتھ نہیں رہتے، اگر یہ یقین دہانی نہیں ہوتی تو کوئی بندہ 17 سال خاموش نہیں بیٹھتا، صولت مرزا کے 17سال نہ بولنے کی وجہ سب کے سامنے ہے کہ جس پارٹی سے ہم لوگوں کا تعلق تھا وہاں اختلاف سنا نہیں جاتا، کوئی اختلاف نہیں کرسکتا، اگر صولت مرزا کہہ دیتے کہ میں نے ہائی کمان کے کہنے پر یہ کام کیا تو ہمارے ساتھ کوئی نہ کھڑا ہوتا، ہم 50 ، 60 بندوں کا خاندان کہاں جاتا۔
انہوں نے کہا کہ صولت مرزا نے کسی دباؤ یا لالچ میں بیان نہیں دیا، انہوں نے یہ بیان اس لیے دیا کہ جو غلطی مجھ سے ہوگئی وہ کسی اور سے نہ ہو، صولت مرزا کا الطاف حسین سے رابطہ تھا، گرفتاری سے قبل صولت مرزا کی الطاف حسین سے بات ہوتی تھی اور صولت مرزا کے بھائی بہنوں کی شادیوں میں گورنر سندھ سمیت ایم کیو ایم کے رہنما شرکت کرتے تھے۔
صولت مرزا کی اہلیہ کا کہنا تھا صولت مرزا جو کہہ رہا ہے اس کی تحقیقات کی جائے، سب کو سامنے لے کر آنا چاہیے، صرف ایک بندہ جو اس میٹنگ میں موجود تھا اس بنیاد پر ایک بندے کو لٹکایا جارہا ہے، وہ سب لوگ کہاں ہیں جنہوں نے ہدایت دی اور مرحوم شاہد حامد کے ساتھ لڑائی اور تلخ کلامی کی، ان کے نام مسز شاہد حامد نے ایف آئی آر میں بھی لکھوائے، اس وقت صولت مرزا کہیں نہیں تھے، ان لوگوں کو کیوں نہیں کٹہرے میں لایا جاتا، صرف صولت مرزا کو پکڑ کر یہ کیس کیوں ختم کردیا جاتا ہے،اس کیس میں 4 لوگ ہیں، ایک راشد مرحوم کو چھوڑ کر باقی لوگ موجود ہیں ان کو کیوں نہیں پکڑا جاتا، جس بندے نے حکم دیا اور جس بندے کے ذریعے حکم آیا اس کو تو کچھ نہیں کہا جارہا۔
انہوں نے کہا کہ صولت مرزا کے پاس لڑکوں کی پوری فہرست ہے جن سے پارٹی نے اظہار لاتعلقی کیا، اس کے بعد ہی صولت مرزا کو احساس ہوا کہ صرف میں نہیں ہوں، ایسے لڑکوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں استعمال کرکے پھینک دیا گیا۔
ایم کیو ایم کا موقف
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ الطاف حسین کے ساتھ صولت مرزا کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ صولت مرزا کی اہلیہ اپنی 14مارچ کی پوزیشن سے ہٹ گئی ہیں، صولت مرزا کی اہلیہ کا حالیہ موقف صولت مرزا کے اس بیان کا تسلسل ہے جو انہوں نے اپنی زندگی بخشے جانے یا زندگی کی میعاد بڑھانے پر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صولت مرزا کی اہلیہ اپنے شوہر کے موقف سے ہٹ کر بات نہیں کرسکتیں، انہیں بھی اسی زبان میں بات کرنی ہے جس میں صولت مرزا نے بیان دیا ہے۔
واضح صولت مرزا کو جولائی 1997 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی)، جو اب کے۔ الیکٹرک کے نام سے جانی جاتی ہے، کے مینیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اشرف بروہی اور گارڈ خان اکبر کو قتل کرنے کے جرم میں 1999 میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔
سیکیورٹی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے صولت مرزا کو اپریل 2014 میں بلوچستان کی مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اورصدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے صولت مرزا کی رحم کی اپیل کو مسترد کیا جاچکا ہے۔
رواں برس 19 مارچ کو ان کو پھانسی دی جانی تھی، تاہم پھانسی سے چند گھنٹے قبل ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے حوالے سے بہت سے الزامات عائد کیے۔
اس ویڈیو کے بعد صدر مملکت نے صولت مرزا کی پھانسی میں 30 اپریل 2015 تک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں