• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

میری اردو بہت خراب ہے!

شائع March 29, 2015 اپ ڈیٹ July 24, 2015

"امی! مجھے نہیں پڑھنی اردو، کتنی مشکل ہے بھئی!"

میری بیٹی نے جھنجلا کر کتاب زور سے پٹخی۔ "یہ کیا بات ہوئی؟ انگلش پڑھنے میں تو کبھی مسئلہ نہیں ہوتا، جہاں ذرا اردو پڑھنے کو کہو، تمہارا منہ بننا شروع!" میں نے اسے گھورا۔ "تو انگلش آسان ہے ناں! اس نے منہ بسورا۔ "اردو بھی آسان ہے، نرسری سے پڑھ رہی ہو، گھر میں بولی جاتی ہے، بس خواہ مخواہ کا مسئلہ بنا لیا ہے"۔ میں نے ڈانٹا اور اس نے کوئی جائےِ امان نہ پا کر کتاب دوبارہ اٹھا لی۔

اگلے دنِ گلی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چہل قدمی کی غرض سے چکر لگاتے ہوئے میرے کانوں میں ایک جملہ پڑا۔ "بس کر دو یار! ایک تو تمہارا بھاشن شروع ہو جاتا ہے"۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا جہاں 12-14 سال کے بچے بچیاں آپس میں کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔" بھاشن کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟" میں نے بلند آواز میں ان سے پوچھا اور آگے بڑھ گئی۔ گلی کے کونے سے مڑ کر جب دوبارہ اسی جگہ پہنچی تو ایک بچی نے جواب دیا۔ "آنٹی! اسپیچ (speech) کہتے ہیں۔"

میں نے قدم روک لیے، "مگر اسپیچ تو انگریزی کا لفظ ہے۔ اردو میں کیا کہتے ہیں بھاشن کو؟"

بچوں نے متذبذب انداز میں ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور ایک نے جواب دیا "بھاشن ہی تو کہتے ہیں اردو میں!"۔

میں نے گہری سانس لے کر کہا "بھاشن ہندی کا لفظ ہے بیٹا! اسے اردو میں تقریر کہتے ہیں!"

سب نے پر جوش انداز میں گردن ہلائی، "اوہ ہاں! یاد آیا" "But speech is so easy word than taqreer Aunty” ایک لڑکی نے کندھے اچکائے۔ "مشکل صرف وہ ہوتا ہے بیٹا جسے آپ مشکل بنا دیتے ہیں۔" میں نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔

پڑھیے: اردو ہے جس کا نام

یہ محض دو واقعات نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی نئی نسل میں ابھرنے والی سوچ ہے جو انہیں اپنی قومی زبان کو مشکل سمجھنے پر اکساتی ہے۔ گذشتہ چند عشروں سے ہماری قوم میں تنزلی کے جو آثار نمودار ہوئے ہیں، اردو سے دوری اور اپنی زبان پر شرمندگی بھی ان آثار کا ایک حصہ ہے۔ اردو سے اس دوری میں نئی نسل سے زیادہ ہم قصوروار ہیں جنہوں نے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی سکھانے پر تو توجہ دی مگر اردو کو نظر انداز کیا۔ اردو زبان ہمارے نصاب کا حصہ تو ہے مگر شاید ہماری توجہ سے سب سے زیادہ محروم ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ جہاں گورنمنٹ اسکولوں میں مسائل انتہائی درجے تک بڑھے، وہیں ہر گلی محلے میں کھلنے والے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں نے انگریزی کا تو جو برا حال کیا سو کیا، اردو کا تو بیڑہ ہی غرق کر دیا۔ اور صرف اسکولوں کو ہی قصوروار کیوں ٹہھرائیے، بحیثیت والدین، سرپرست، اور خاندان، ہم نے بھی تو نئی نسل میں انگریزی الفاظ اور بول چال کو پروان چڑھانے اور اردو کو پیچھے رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

آتے جاتے مہمانوں کے سامنے بچوں کو انگریزی میں تلقین و سرزنش کی جاتی ہے تاکہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا رعب پڑے۔ ننھے بچوں کو انگریزی نظمیں گا کر مہمانوں کو سنانے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ بتایا جا سکے کہ بچے کے اسکول میں انگریزی زبان سکھانے پر کتنی توجہ دی جاتی ہے۔ یہ المیہ محض انگریزی کی ترویج تک ہی محدود نہیں بلکہ گھر گھر چلنے والے ہندی ڈراموں، فلموں اور پروگراموں نے ہندی کو بھی ہر گھر کی عام بول چال کا حصہ بنا دیا ہے۔

اب گھروں میں "سکون" کے بجائے "شانتی" تلاش کی جاتی ہے اور رات کو "خواب" کے بجائے ہم "سپنے" دیکھتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ بعض گھرانوں میں جہاں خالہ اور پھوپھا کے رشتوں کو انکل اور آنٹی کے القاب دے دیے گئے ہیں، وہیں "دیدی" اور"جیجو" بھی سننے میں آتے ہیں۔

ہو سکتا ہے بعض لوگ اسے دنیا کو گلوبل ولیج قرار دیے جانے اور زبان کو سرحدوں کی حدود سے آزاد کر دینے کے خلاف میرا لسانی تعصب قرار دیں، لیکن اصل مقامِ فکر تو یہ ہے کہ جہاں ہماری قوم، ہماری نسل اپنی بہت سی روایات، تہذیب، افکار اور شناخت پر سمجھوتے کر رہی ہے، وہیں وہ زبان جو کبھی ہمارا فخر، ہمارا غرور اور مان ہوا کرتی تھی (میرے نزدیک آج بھی ہے) کہیں ایسے ہی کسی سمجھوتے کی نذر نہ ہو جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس بات کی نشاندہی سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا ہمارے یہ کہنے سے کہ ہماری نئی نسل کو اپنی زبان پر فخر کرنا چاہیے، سوچ میں تبدیلی آجائے گی؟ ہرگز نہیں! اگر ہمیں واقعی اپنی زبان کو آگے بڑھانا ہے تو ہمیں اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسی راہیں تلاش کرنی ہوں گی جن پر عمل کر کے ہم اسے پروان چڑھا سکیں۔

مزید پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

"کون بنے گا کروڑپتی" میں جب امیتابھ بچن شدھ ہندی بولتے ہیں، یا نیشنل جیوگرافک کے میں پروگراموں کی ہندی ڈبنگ کی جاتی ہے، اور میچ کی ٹھیٹھ ہندی میں کمنٹری کی جاتی ہے، تو سن کر ہم کہتے ہیں کہ دیکھو! وہ اپنی زبان کو کیسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ لیکن جب ہمارے کرکٹ کے کھلاڑی اردو بولتے اور اردو میں انٹرویوز دیتے ہیں تو ہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھوں انہیں انگلش تک نہیں آتی۔

چین اور جاپان کے وزرائے اعظم انگریزی سمجھنے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی تقاریر اپنی زبانوں میں کرتے ہیں تو ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے مخلص ہیں۔ لیکن اگر ہمارا کوئی سیاستدان، وزیر یا ٹی وی اداکار انگریزی سے لاعلمی یا کم علمی کا اظہار کرے تو ہم اسے "پینڈو" کہہ کر پکارتے ہیں۔

اگر ہمیں اپنی زبان کو آگے بڑھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اسے دلِ سے اپنانا ہوگا۔ اس پر شرمندگی کے بجائے فخر کرنا ہوگا۔ عام بول چال میں اسے ترجیح دینی ہوگی۔ ہم نے جو اپنی زبان کو انگریزی سے کم تر سمجھنے کا رویہ اپنا لیا ہے، اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ اردو کو احساسِ کمتری کے پردے سے باہر نکالنا ہو گا۔

کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ اچھی انگریزی نہیں بول سکتا؟ کبھی کسی جرمن کو اپنی زبان پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟ تو کیوں ہم بڑے فخر سے محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ "My Urdu is really bad" اسی ملک میں پیدا ہونے، پلنے بڑھنے والے، تعلیمی اداروں سے اسی زبان میں تعلیم پانے والے، گھروں میں مکمل اردو (یا کوئی علاقائی مادری زبان) بولنے والے یہ کہتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے؟ املا غلط، تلفظ غلط اور افسوس کی بات یہ کہ اس غلطی کو سدھارنے کے بجائے اس کا فخریہ اعلان! چار جملوں کی بات کے درمیان دو جملوں میں انگریزی الفاظ کا غیر ضروری تڑکا اس بات کا غماز ہے کہ کس طرح ہم اپنی شناخت اور فخر پر سمجھوتے کرتے جا رہے ہیں۔

جانیے: پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں

اردو کو پروان چڑھانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ خود کو انگریزی یا دیگر زبانوں سے دور کر لیا جائے۔ جتنی چاہے زبانیں سیکھیے، سمجھیے، بولیے، پڑھیے، لیکن ساتھ ساتھ اردو کو بھی یاد رکھیں۔ اسے وہ درجہ، وہ مقام دیجیے جو اس کا حق ہے۔ اردو بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ چین اور جاپان کی طرح ہر زبان میں تخلیق کیا گیا جدید اور بہترین ادب، نئی تحقیقات، نئے رجحانات اپنی زبان کے سانچے میں ڈھالیں، تاکہ نئی نسل کو تمام تر معلومات اور علم اپنی زبان میں میسر آسکے۔ اسِ ضمن میں بہت کام ہو بھی رہا ہے، لیکن حکومت اور اردو بورڈ سے زیادہ بحیثیتِ پاکستانی یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو وہ ورثہ منتقل کریں جو غالب، میر، فیض اور فراز نے ہمارے لیے چھوڑا ہے۔

انہیں اس ترکے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپیں جو ہمیں عصمت چغتائی، منٹو، منشی پریم چند، انتظار حسین اور مشتاق احمد یوسفی سے ملاِ ہے۔

ہر گھر میں، روزمرہ بول چال میں، اپنے ابلاغ میں اردو کو اتنی ترویج دیں کہ اردو کی ایک بار پھر بقول مرزا داغ دہلوی دھوم سارے جہاں میں ہو جائے۔

شاذیہ کاظمی

شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (25) بند ہیں

Rizwan Ali Zia Mar 29, 2015 04:32pm
bohat umda tajzeeya kiya aap nay mohterma, khuda khush rakhay aap ko
محمد ارشد قریشی (ارشی) Mar 29, 2015 11:57pm
بہت عمدہ اور حقیقت پر مبنی تحریر بلکل ایسا ہی ہے قابل افسوس بات پے کہ لوگ اردو بولتے شرم محسوس کرتے ہیں کہ اردو بولنے پر انھیں کم تعلیم یافتہ سمجھا جائے گا اردو کی اصلیت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے اب اس پر ستم یہ کہ سوشل میڈیا پر ایک نئی زبان رومن اردو کی یلغار ہے جس نے اردو زبان کی تباہی میں جو کسر باقی تھی وہ بھی پوری کردی ۔ بہت کم سننے کو ملتا ہے کہ کوئی کہیے صبح بخیر یا شب بخیر Good Morning / Good Night کہنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے ۔
یمین الاسلام زبیری Mar 30, 2015 12:18am
شاذیہ نے جو بحث چھیڑی ہے ہمارے پاکستانی والدین کو اسے بہت اہمیت دینی چاہیے، اور اپنے بچوں کو اردو کی طرف مائل کرنا چاہیے۔ اوپر مضمون میں کئی مثالیں دی گئی ہیں کہ مختلف قومیں اپنی زبان کی قدر کرتی ہیں۔ یہاں میں اسرائیل کو داد دیے بغیر نہیں رہوں گا جنہوں نے اپنی زبان کو نئے سرے سے بحال کر لیا ہے۔ دوسری مثال امریکہ کی ہے۔ امرکیوں نے تہّیہ کر لیا کہ وہ انگریز کی غلامی نہیں کریں گے اور انہوں نے کرکٹ کی بجائے بیس بال کھیلا، چائے کی بجائے کافی پی، سڑک پر الٹے کی بجائے سیدھے ہاتھ چلے اور اپنی زبان کو انگریز کی انگریزی سے دور کر کے اسے امریکی انگریزی بنا دیا۔ یہاں میں خاص کر نوجوان والدین سے کہوں گا کہ وہ خود رومی اردو سے بچیں، اور اپنے بچوں کو بھی اس سے دور رکھیں۔ رومی اردو ایک غیر میعاری لکھائ ہے، اور ہمیں اردو املا سے بہت دور لے جا رہی ہے۔ اب کمپیوٹر پر اردو لکھنے کے بہت سے پروگرام آرہے ہیں، اور بی بی سی سے لے کر گوگل تک سب ہی اردو کی ترقی مٰیں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ان کی حوصلہ افضائی کرنی چاہیے۔
Sana Mar 30, 2015 03:27am
اگر اردو عام ہو گئ تو علاقائ تعصب کیسے پروان چڑھے گا!!!!!؟ لمحہ فکریہ ہے حکمرانوں کے لیے!!!
Imran Ahmad Mar 30, 2015 08:09am
بات تو سچ ہے مگر بات ہےرسوائی کی۔
محمد ارشد قریشی (ارشی) Mar 30, 2015 09:12am
@Sana صحیح فرمایا آپ نے ایک پہلو یہ بھی ہے۔
Zeeshan Mar 30, 2015 09:38am
Dear Shazia Qazmi Bohat acha likha app nain. ALLAH app ko jaza-e-khair ata farmayen.
SMAZ Mar 30, 2015 12:31pm
"ایکچولی" ہم احساس کمتری کی وجہ سے " صفر" کر رہے ہیں. "سچ اے شیم"
sohail Mar 30, 2015 01:10pm
Urdu zabaan say ishq say pehlay zaroori hay k ic bat ko yaqini bnaya jay k mayari adab urdu zaban mein takhleeq kia jay ga
Sharminda Mar 30, 2015 03:06pm
Behtareen tajzia hai. Yeh Pakistani Qoam ki taleem yafta aqliat ki aksariat kay dohray mayar ki akaasi hai. Mairay nazdeek Tahqeeq aur Takhleeq kay liay aap ka apni madari zabaan par aboor zaroori hai. Jaisay keh musanifa nay likha hai, China aur Japan is ki behtreen misalain hain.
حسن عمر Mar 30, 2015 03:08pm
اردو ہمارے گهر کی لونڈی ہے جس کے ساتهه ہم لونڈیوں جیسا سلوک کرتے ہیں...
فاروق عاربی Mar 30, 2015 03:29pm
آج اردو بولنے والے اردو کی ناقدری کا رونا روتے ہیں، کہ نئی نسل انگریزی پسند کرتی ہے- لیکن کچھ ہی عرصہ پہلے اسی اردو زبان کی خاطر ہم نے اپنی مادری زبان 'سرایئکی' چھوڑی تہی- ہم اپنے بچوں سے اردو میں بات چیت کرتے رہے تا کہ وہ 'مہذب' بنیں اور کہلائیں- آج وہ اردو چھوڑ کے انگریزی اختیار کر رہے ہیں تاکہ زیادہ 'بڑے مہذب' کہلائیں-
Faizan Qadri Mar 30, 2015 03:37pm
بہت خوب ہے میرے دل کی آواز ہے میں اگر یہ سوال کرتا ہوں اپنے دفتر میں تو لوگ طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہیں اردو کو کم تر سمجھاجانا واقعی ہماری قوم کا المیہ ہے
رضوان زیدی Mar 30, 2015 04:37pm
سلام ایک مثبت جانب توجہ مبذول کرانے کا شکریہ ۔۔ اعتراض آمیزش پر ہے یا انگریزی پر ۔۔ اردو ایک لشکری زبان ھے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو لشکر کشی کے بعد ہوتا ہے ۔ متبادل و مترادف یہ مستقل مسئلہ ہے ۔مِقْیاسُ الْحَرارَت کون بولتا ہے سب تھرمامیٹر پکارتے ہیں ۔ بات ہندی اسلوب کی نہیں اس تہذیب کی ہے جو ہماری سوچ و فکر سے متصادم ہے (شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔) اصولی طور پر تعارف بھی اردو میں ہونا چاہئیے تھا۔ لغت مرتب کرنے والا ادارہ اردوڈکشنری بورڈ کے نام سے کام کرتا رہا ہے ۔ بہر کیف اس زبان کی ترویج و تراکیب پر توجہ ضرور دینی چاہئیے ۔۔۔
saeed asghar Mar 30, 2015 05:51pm
میں آج بے انتہا خوش ہوں کہ کسی لکھاری نے تو اردو کو اپنی جانا،رہی سہی کسر آج کل کے صحافی حضرات اور ان کی تازہ ترین (بریکنگ نیوز ) نے پوری کر دی ہے جلدی میں جو چاہے بولو،جو چاہے لکھ ڈالو
PAKISTAN Mar 30, 2015 05:58pm
Communication in English is not a criteria of judging people for their Intelligence and knowledge, every Tom , Dick, and Harry can communicate. If Pakistanis feel proud in English then they will never ever come out of slavery. Feeling ashamed and abandoning mother tongue or national language is sign of slave mind set.
نجیب احمد سینگھیڑہ Mar 30, 2015 08:29pm
یہ بلاگ پاکستانی سطح کی سوچ نہیں۔ بلکہ کراچی کی سوچ کا اظہار ہے۔ اور کراچی پاکستان نہیں ہے! موصوفہ نے اپنی زبان پر زور دیتے ہوئے اردو کو عالم کائنات کی ‘پوتر ترین‘ زبان ٹھہرانے کے لیے خوب لفظوں سے کھیلا ہے مگر دال نہیں گلنے والی کیونکہ بقول محمد رفیع ‘حقیقت ہمیشہ حقیقت رہے گی، کبھی بھی نہ اس کا فسانہ بنے گا‘۔ سوال یہ ہے کہ بلاگر بی بی نے اپنی زبان پر فخر کرنے کی تلقین کی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی اپنی زبان پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو یکسر نظر انداز کر دیا اور صرف اردو کا ذکر کیا ہے؟ کیا پاکستانیوں کی اپنی زبان اردو ہے؟ اردو زبان کو اگر ہماری زبان بطور سرکاری ٹھپہ لگی یعنی پاکستانی زبان کے سمجھا گیا ہے تو بھی بےوزن ہے۔ کیونکہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے مگر ہر کوئی کرکٹ کے گُن گا رہا ہے۔ قومی مشروب گنے کی رَو (رس) ہے لیکن قومی سطح کے اداروں اور اسمبلیوں میں منرل واٹر کی بوتلیں دکھائی دیتی ہیں۔۔۔۔۔ جب کوئی قومی چیز ملک کے عوام پسند نہیں کرتے یا کم پسند کرتے ہیں تو پھر اردو کو پسند کرنے یہاں تک کہ اسے ہر پاکستانی کے سر پر ٹھونسنے کے لیے اتنا تردد کیوں؟
Khurram Aziz Mar 31, 2015 11:01am
بہترین اور قریب حقیقت تحریر ہے مگر میری رائے میں اب بہت دیر ہو چکی ہے. زبان تب ترقی کرتی ہے جب وه ذریعہ تعلیم ہو اور سرکاری سطح پر بھی اس کی ترویج کی جائے. ہماری تو سرکاری زبان ہی انگریزی ہے تو ہم اردو کی کیا حفاظت کریں گے. افسوس!‎
Ms Lashari Mar 31, 2015 02:11pm
URDU hy jiska naam hum janty hyn Daag .. saary jahan me dhoom hmari zuban ki hy kaash woh zamana phir sy ajaye k hum apni nasloo ko urdu seekhny bolny pr shabash dayn.... .
Chaudhry Shahkar Muhammad Mar 31, 2015 09:23pm
اردو کے جو ہو رہا ہے میری نظر میں یہ بھی اس سازش کا حصہ ہے جو پاکستان کے ساتھ ہورہی ہے۔ جن قوموں تباہ کرنا ہوتا تو اس کو سب سے پہلے اس کی اقدار اور اس کی زبان کو پامال کیا جاتا ہے۔ ہندی فلموں کا غلبہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ نہ صرف نوجوان نصل بلکہ ہمارے ڈرامہ نگار تک ہندی لکھ رہے ہیں۔ اور ہمارے فنکار بغیر کسی تردد کے اردو کے الفاظ ہندی تلفظ سے ادا کر رہے ہیں۔ غلطی کو گلطی بول رہے ہیں۔ اور کسی کو فکر نہیں کہ آنے والے وقتوں میں ہمارے بجے اردو چھوڑ کر ہندی بول رہے ہونگے۔ اردو کی بقا کے لئے ہمیں مل کر ایک تحریک کی طرح کام کرنا ہوگا۔ آپ جیسے باشعور لوگوں کی کوششوں یہ کا ہوسکتا ہے۔ آپ یہ علم بلند کریں ہم آپکے ہر طرح سے ساتھ ہیں۔ اللہ آپکو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ آمین ۔
محمد ثناءاللہ طاہر Mar 31, 2015 11:17pm
اردو جسے کہتے ہیں تہذٰیب کا چشمہ ہے وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
انجم سلطان شہباز Apr 01, 2015 06:51am
اردو بلاشبہ دنیا کی بولی جانے والی بڑی زبانوں میںسے ایک ہے مگر ایک عجیب طرح کا احساس کمتری اور رویہ اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہے، اب تو طلبا کےلئے شائع ہونے والی کتب میں بھی قواعد اردو کا خاص التزام نہیں رکھا جاتا۔اردو کی ترقی میں ہم سب کو اہنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ہماری پہچان اور ذریعہ اظہار ہے۔
نعمان یونس Apr 02, 2015 02:00am
بہت ہی اچھا مضمون ہے اور ہمارے معاشرے کی بالکل درست عکاسی ہے۔ لکھاری کا تعرف پڑھا تو سوچا ایڈیٹر صاحب کی توجہ یہاں دلا دوں کہ ماس کمیونیکیشن کو اردو میں ابلاغِ عامہ کہا جاتا ہے۔
Imran Hasan Apr 03, 2015 11:10am
EK accha mouzo intikhab kiya hai ap ny, mojooda dor kay leihaaz sy, pura article parh kai, ap ki urdu adab say lagao or mohabbat ka ehsas ap kay andar mila wo har Pakistani or urdu bolnay walay kai andar hona chahiyay…… magar masla ye hai kay ham log zehni gulam hai farangiyo kay or aik muddat guzarney kay bawajood abhi tak ham unki gulami say bahar nahi nikal pa rahay hai … boli say lay kar zaroriyat-e-ashiya, hamay BRANDED Chahiyay, hamary ghar ka koi bacha kisi mahfil main ENGISH boly to hamey fakhar hota hai or urdu boley to shamindagi Kash har Pakistani ki soch ap jaisi ho Sochnay or samajnay ki salahiyat Miss. Shazia ki tehreer my hai, Allah Pak apko tarraqi dai ! Ameen ! Waqai mai hamara Maashara hi hamara dushman hai. Sab key bacchey school jatey hain, merey bhi bacchey school jatey hain, aik din meri beyti mujh sey keh rahi hai “Please don’t talk in Urdu, Please talk in English” mujhey hansi a gai or efsoos bhi, hamarey bacchey school kia seekhney jatey hai? Sirf Englis…!?
Ms Lashari Apr 03, 2015 12:34pm
please refer some good Urdu writers/books.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024