• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

تلور کی دہائی

شائع March 28, 2015
کیا عرب ممالک میں بھی تلور کا ایسا ہی بے دریغ شکار کرنے کی اجازت ہے جیسا پاکستان میں ہوتا ہے؟ — اے پی/فائل
کیا عرب ممالک میں بھی تلور کا ایسا ہی بے دریغ شکار کرنے کی اجازت ہے جیسا پاکستان میں ہوتا ہے؟ — اے پی/فائل

آپ کو میری اس بات پر ہنسی آئے گی کہ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک پرندہ نہ صرف ایک پسماندہ ضلعے کی ترقی کا سبب بنے، بلکہ دو ممالک کے دوستانہ تعلقات میں بھی اس کا اہم کردار ہو؟

جی ہاں ایسا ہی ہے۔ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی رحیم یار خان میں ایک دم سے صفائی کا عمل تیز ہو جاتا ہے، پولیس کا گشت بھی بڑھ جاتا ہے، مقامی آبادی کے چہرے بھی کھل اٹھتے ہیں کہ اب عارضی ہی سہی، مگر روزگار کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس سے ملتی جلتی مسکراہٹ ہر بادشاہِ وقت کے چہرے پر اس دن عیاں ہوتی ہے جب وہ اس ضلعے کی انتظامیہ کے ہمراہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مہمانوں کے استقبال کے لیے موجودہوتا ہے۔ آنے والے شاہی مہمانوں کا اسی طرح استقبال کیا جاتا ہے جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کا کرتا ہے۔

مہمان نوازی کی اس روایت کا آغاز 70 کی دہائی سے ہوا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شہر بھر میں جدید ترین لینڈ کروزرز کی بھرمار ہوتی ہے تو ایئرپورٹ کا رن وے پرائیوٹ جیٹ جہازوں سے بھرا رہتا ہے، بلکہ اب تو اس کے صحرائی علاقے میں دو عدد طویل رن وے کے حامل پرائیوٹ ایئرپورٹس بھی بنا دیے گئے ہیں جہاں بھاری سے بھاری ہوائی جہاز لینڈ اور ٹیک آف کر سکتا ہے، اور یہ عین سرحدی حساس علاقے میں واقع ہیں۔

دوسری طرف جب جنگل میں منگل کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں، تب ضلع بھر کی پولیس ڈھیلی ڈھالی پتلونیں پہنے مرکزی راستے پر سینہ تانے کمان کی طرح چوکس کھڑی ہوتی ہے۔ ایسا کب، کہاں اور کیونکر ہوتا ہے، تو میں آپ کا تجسس ختم کیے دیتا ہوں۔ ایسا ٹھیک اس وقت ہوتا ہے جب ایک پرندہ تلور (Houbara Bustard) وسطِ ایشیا سے گرم علاقوں کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے، اور دورانِ سفر مختلف علاقوں میں عارضی پڑاؤ کرتا ہے۔ اس پٹی میں ایک مقام رحیم یار خان کا صحرائی علاقہ بھی ہے۔

پڑھیے: شکار کا موسم

تلور کا شمار خوبصورت صحرائی پرندوں میں ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی چونچ سے لے کر دم تک اوسطاً 65 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ نر تلور مادہ تلور سے سائز میں دس فیصد بڑا ہوتا ہے، کیونکہ نر اور مادہ کی گردن اور دم کی لمبائی میں فرق ہوتا ہے۔ اس کے پروں کا رنگ اسے نیم صحرائی علاقوں میں اپنے دشمن سے چھپنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر اس کا سامنا کسی دشمن پرندے سے ہو، تو یہ اپنے پر پھیلا لیتا ہے اور تیزی سے خود کو حرکت میں رکھتا ہے جس سے یہ اپنے سائز سے کافی بڑا دکھائی دیتا ہے اور مخالف کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔

افزائشِ نسل کے موسم میں اس کا رقص بھی کم دلکش نہیں ہوتا۔ ہجرت کے دوران یہ 4000 سے 7000 کلومیٹر کا سفر کرتا ہے، جبکہ دوران پرواز 300 سے 500 فٹ کی بلندی اختیار کرتا ہے۔ بہت شرمیلی عادات کے ساتھ ساتھ یہ پرندہ بہت حساس واقع ہوا ہے۔ عام طور پر ایک روٹ سے بلا خطر گزر جائے تو آنے والے کئی سالوں تک اسی روٹ پر سفر جاری رکھتا ہے، اور اگر اسے اپنے پہلے سفر میں کوئی خطرہ محسوس ہو جائے تو دوسری دفعہ اس روٹ کو اختیار نہیں کرتا۔ اس کا دورِ حیات 15 برس تک ہو سکتا ہے مگر اس کی ایک تعداد اپنی طبعی موت سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی ہے۔

مادہ تلور کم از کم دو سال کی عمر سے پہلے انڈے نہیں دیتی، تاہم یہ ایک سال کی عمر میں بھی انڈے دے سکتی ہے۔ مادہ تلور سال بھر میں موسم بہار میں دو انڈے دیتی ہے اور انڈوں کو 23 دن تک سینچتی ہے، اور بچہ اگلے ہی دن اپنے گھونسلے سے باہر نکل آتا ہے۔ مختصر فاصلے تک اس کی اڑان کا سلسلہ دو ماہ کی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے مگر مکمل اڑان چھ ماہ کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے ایک بچہ جو کمزور رہ جاتا ہے، اسے دوسرا بچہ جو کہ اس کے حصے کی خوراک بھی چھین کر کھا رہا ہوتا ہے، حصول خوراک کے لیے کمزور بچے کو مار ڈالتا ہے۔ ان کی تعداد میں تیزی سے کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

مزید پڑھیے: جانور کا دشمن انسان

دیکھنے میں معصوم دکھائی دینے والا تلور اپنے اندر جارحانہ پن کے خواص بھی رکھتا ہے۔ اس کا عملی نمونہ باز اور اس کے مقابلے کے دوران بھی دیکھا جا سکتا ہے، جس میں یہ مقابلہ کرتا ہے اور بعض دفعہ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ 1912ء میں اس کا شمار ان پرندوں میں ہونے لگا جن کی تعداد تیزی سے ختم ہو رہی تھی، مگر 1976ء میں اس کے شکار پر بین الااقوامی اداروں نے مکمل پابندی عائد کر دی اور 1992ء میں اس معاملے میں مزید سختی کی گئی۔

درحقیقت جہاں اسے انسانوں نے تیزی سے ایک ایڈوینچر بنا کر تو کبھی اسے اپنی تاریخی ثقافت کی اوڑھ دے کر خاتمے کے قریب پہنچا دیا، وہاں اسے محفوظ کرنے کے لیے اپنی جدوجہد بھی جاری رکھی۔ اس کی افزائش نسل کے لیے سینٹرز بنائے گئے جہاں انہیں قدرتی و سازگار ماحول دیا گیا مگر اس میں انقلابی سرگرمیاں متحدہ عرب امارات میں سویحان کے مقام پر نیشنل ایویان سینٹر میں ہوئیں جہاں مصنوعی طور پر ان کی افزائش نسل بھی کی گئی۔

دوسری طرف عرب ثقافت میں باز سے شکار کرنے کی روایات بہت پرانی ہے اور اس سلسلے میں براہ راست حکومت مختلف عرب ممالک کو خصوصی طور پر پرمٹس جاری کرتی ہے، جبکہ محکمہ وائلڈ لائف ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیے دور کھڑا رہتا ہے۔ اس کی جرات کہاں کہ وہ بادشاہوں کے بوئنگ جہازوں میں فریزرز باکس میں شکار کیے گئے تلور کی گنتی کرے۔ حکومت نہ صرف پرمٹس جاری کرتی ہے بلکہ جہاں جہاں یہ پرندہ عارضی طور پر پڑاؤ کرتا ہے، ان سب علاقوں کی بندر بانٹ بھی کر چکی ہے کہ یہ علاقے ان شہزادوں کے لیے وقف ہیں۔

حالیہ چند سالوں میں جس بے دردی سے پاکستان میں اس پرندے کا شکار کیا گیا ہے، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ باہر سے کوئی ہمارے ملک آتا ہے، 21 دن میں 2100 تلور مار کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے، مگر تلور کی حفاظت ہمارا مسئلہ نہیں، ہمیں صرف عرب شہزادوں کی شکاری مہم کی کامیابی کی فکر ہے، اور اسی لیے ان کو ہر طرح کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

لیکن بڑھتے ہوئے شکار، جنگلات کے کٹاؤ اور چولستان میں ان کی قدرتی آماجگاہوں کی انسانی ہاتھوں سے تباہی کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال آنے والے پرندوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے جیسے جیسے اس پرندے کا رخ علاقے سے تبدیل ہو رہا ہے، عرب شہزادوں کی ان فلاحی منصوبہ جات، جو وہ مقامی افراد کو تلور کے بدلے دیا کرتے تھے، میں دلچسی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

جانیے: دنیا جلد محروم ہوجائے گی ان زبردست جانوروں سے

مگر ایک بات کا شکر ہے کہ اب پرمٹس میں پرندوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے بھی جب تلور ہی ختم ہو جائیں گے تو پرمٹس میں ان کی تعداد بڑھا کر ملنا بھی کیا ہے؟ چند دنوں میں صفر ہی کر دی جائے گی کیونکہ کچھ بچے گا ہی نہیں۔

ویسے اس پرندے کی چیخ و پکار تو بلوچستان کی اسمبلی میں بھی ایک بار سنائی دی تھی مگر پھر جانے کیا ہوا۔ اور ایک قابلِ غور بات یہ کہ کیا عرب ممالک میں بھی اس کے ایسے ہی بے دریغ شکار کی اجازت ہے؟

شہباز علی خان

شہباز علی خان انٹرنیشنل رلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں، اور فری لانس رائٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Rizwan Rebel Mar 28, 2015 02:41pm
عربوں کی روایات کے مطابق تلور کا گوشت قوت مردمی کے لئے مفید تصور کیا جاتا ہے۔
shahbaz ali khan Mar 28, 2015 04:37pm
According to myth, though not supported by any scientific studies, the meat of houbara bustards has aphrodisiac qualities.
عامر سجاد گیلانی Mar 28, 2015 06:11pm
تو پھر عرب اپنی اس قوت کا تحفظ کریں ناں۔ فطرت کی تباہی کے کیوں درپے ہیں؟ اور ہمیں دیکھیں کیسے چند ٹکوں کی خاطر ملک کو بیچ رہے ہیں۔
Sharminda Mar 30, 2015 04:30pm
Jo hukamran qoam kay bachoon ko ghairon kay haath day dain, un say baichara taloar kia umeed rakhay.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024