صولت مرزا وڈیو معاملے پر مقدمہ دائر کروں گا: الطاف حسین
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے پھانسی سے چند گھنٹے پہلے صولت مرزا کی ایک ویڈیو پیغام کی ریکارڈنگ پر سوالات اُٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر وزیراعظم نواز شریف اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے خلاف ایک مقدمہ دائر کریں گے۔
جمعرات کو ایک ٹی وی پروگرام میں ٹیلی فون کے ذریعے حصہ لیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ ’’صولت مرزا کی وڈیو کہاں سے آئی؟ یہ ڈیتھ سیل سے اس کی پھانسی سے چند گھنٹے پہلے کیسے باہر آئی؟ میں ایک وزیراعظم اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کراؤں گا۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کو کراچی میں خراب صورتحال کی رپورٹوں پر دو مرتبہ معطل اور کچھ کارکنوں کو برطرف کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا، لیکن کیا کوئی شخص مجھے کسی پارٹی کے رہنما کا نام بتاسکتا ہے جو اس طرح کے رویے کا شکار ہوا ہو؟‘‘
اسی پروگرام میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناءاللہ نے ایم کیو ایم کے قائد کی اس دلیل کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایسی کوئی بھی مثال نہیں ملتی کہ سزائے موت کے منتظر ایک مجرم کو اس کی پھانسی سے چند گھنٹے پہلے اس کے ویڈیو پیغام کو نشر کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔
یاد رہے کہ صولت مرزا نے الطاف حسین، سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں پر سنگین الزمات عائد کیے تھے اور کہا تھا کہ اسے اور دیگر کارکنوں کو پارٹی کی جانب سے استعمال کیا گیا، اور ’’ٹشوپیپر کی مانند استعمال کے بعد پھینک دیا گیا۔‘‘
اس کے نو منٹ کے بیان میں لگائے گئے الزامات کو تقریباً تمام نیوز چینلز نے نشر کیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ انٹرویو بلوچستان کی مچھ جیل میں کس طرح اور کب ریکارڈ کیا گیا، جہاں اس پھانسی دے دی جائے گی۔
مذکورہ ٹی وی پروگرام میں ایم کیو ایم کے قائد نے اس بات کو مسترد کردیا کہ سابق سٹی ناظم مصطفٰے کمال اور انیس قائم خانی کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز نائن زیرو اور اس کے ملحقہ علاقے سے چھاپے کے دوران غیرملکی ہتھیار برآمد کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں کسی پر الزام عائد نہیں کرتا۔ فوج کل بھی ہماری تھی، اور آج بھی ہماری ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے میں نے اس روز وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔‘‘