• KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm

دہشتگردی کے بدلتے محرکات

شائع March 25, 2015
لاہور میں چرچ کے باہر ہونے والے دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار جمع ہیں۔ 15 مارچ 2015 — اے پی
لاہور میں چرچ کے باہر ہونے والے دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار جمع ہیں۔ 15 مارچ 2015 — اے پی

امریکا پر القاعدہ کے حملے کے بعد سے پاکستان میں جاری دہشتگردی کروٹیں بدلتے بدلتے اِس مقام پر آن پہنچی ہے جہاں دہشتگردی کے پسِ پردہ محرکات تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کا ساتھ دینے پر شروع ہونے والی دہشتگردی کا رخ اب بدلتا دکھائی دے رہا ہے اور دہشتگردی کی تازہ لہر میں پورے پاکستان کے بعد اب اقلیتوں کو بھی خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

9/11 کو گزرے 14 سال بیت چکے۔ امریکا افغانستان میں شکست تسلیم کر کے افغانستان سے راہِ واپسی اختیار کرچکا۔ امریکا سے دشمنی کو بنیاد بنا کر شروع کی جانے والی دہشتگردی اب نفاذِ شریعت کے مطالبے میں بدل چکی ہے۔

اصل میں پاکستان ایک ایسی مہلک بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔ جس کا علاج اب دم اور درود سے ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کو اب ایک ایسی سرجری کی اشد ضرورت ہے جس کے ذریعے پاکستان کے پورے وجود میں پھیلی ہوئی انتہا پسندی کو ختم کیا جائے۔ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ انتہا پسندی کی جڑوں کو مزید پھیلنے سے روکا جائے۔

وقت کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی نے بھی اپنی شکلیں بدلی ہیں اور دہشتگردوں نے بھی اپنے اہداف تبدیل کر لیے ہیں۔ دہشتگردی کی بدلتی وجوہات کے باوجود پاکستان میں حالات نہیں بدلے۔ نہیں بدلی تو پاکستان میں رہنے والوں کی زندگیاں۔ آج بھی ایک عام پاکستانی اتنا ہی خوفزدہ اور سہما ہوا ہے، جتنا کہ وہ اس پرائی جنگ کی شروعات میں تھا۔

پہلے تو پاکستانیوں کو اس بات کی سزا دی گئی کہ پاکستانی حکومت نے افغان طالبان کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، حالانکہ سزا کا مستحق تو وہ ڈکٹیٹر تھا جس نے روس کے بجائے امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ نہ تو وہ کوئی جمہوری حکمران تھا جس کے بارے میں کہا جائے کہ چونکہ وہ جمہوری نمائندہ تھا، اس لیے اس کے فیصلے کی سزا اس کو منتخب کرنے والوں کو بھی دی جانی چاہیے، اور نہ ہی اسے پاکستانیوں کی حمایت حاصل تھی۔

پھر 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد اگلی منتخب شدہ حکومت کو پرانی پالیسیز کو ہی جاری رکھنا پڑا کیونکہ ملک اس وقت تک اس قابل ہی نہیں تھا کے بِنا امریکی آشیر واد کے چل سکے اور یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

مگر اب جبکہ امریکہ افغانستان سے راہِ فرار اختیار کرچکا ہے، اس کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی بنا کسی وقفے کے جاری ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور آیا ہے کہ پہلے آئے روز پاکستانی مسلمان خودکش دھماکوں کا شکار بنتے تھے، مگر اب غیر مسلم پاکستانی بھی شکار بن رہے ہیں۔ اقلیتی ہوں یا اکثریتی، شکار پاکستانی ہی بن رہے ہیں۔

پہلے دھماکے مساجد، مزاروں، یا امام بارگاہوں میں ہوتے تھے۔ جہاں اقلیت سے تعلق رکھنے والے فرد کا کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ ہاں بازاروں میں ہونے والے دھماکوں میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے اِکّا دُکّا افراد لقمہ اجل ضرور بنتے تھے۔

لاہور کے یوحنا آباد میں ہونے والے دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے پر خوب شور و غل مچایا گیا۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ یہ شور مچانے والے کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ان دھماکوں کے پیچھے جو بھی ہے، وہ ان کے احتجاج پر کوئی توجہ دے گا؟ کیا احتجاجیوں کا خیال ہے کہ یہ دہشتگرد کسی کے کنٹرول میں ہیں؟

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب پاکستان میں اکثریت ہی محفوظ نہیں تو اقلیتیں محفوظ ہونے کا تصور بھی کیسے کر سکتی ہیں؟

پاکستان کے حالات دیکھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو جو دہشتگرد نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے مقاصد ایک سے زیادہ ہیں۔ مگر ان تمام دہشتگردوں کا ٹارگٹ چونکہ پاکستان ہے، اس لیے ان تمام گروپس میں دہشتگردی کا تقریباً ایک جیسا ہی رجحان پایا جاتا ہے۔

جب سکیورٹی فورسز اور سیاستدانوں پر حملے کیے جاتے ہیں، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حملے ان دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے کیے گئے، جو کہ امریکہ کے مخالف ہیں، اور افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر ناراض ہو کر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

مگر جب عام پاکستانیوں کو مساجد، مزاروں، بازاروں، امام بارگاہوں، گرجا گھروں، اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں؟ کیا وجہ پیش کی جاتی ہے؟

ان جگہوں پر حملے کرنے والے شاید اس سوچ کے ساتھ دھماکے کرتے ہیں کہ یہاں موجود لوگ ایک ایسی حکومت کے حامی ہیں جو کہ امریکی اشاروں پر کام کرتی ہے۔

جب تک دہشتگردوں کے دماغوں میں یہ سوچ باقی رہے گی، تب تک کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ دہشتگرد حملے رکیں گے؟ میرا خیال ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان کے پروپیگنڈا کا بھی بھرپور جواب دینا چاہیے تاکہ دہشتگردوں کے پاس اپنی کارروائیوں کا نہ کوئی جواز بچے، اور نہ ہی اس جواز کی بنا پر وہ سادہ لوح پاکستانیوں کو گمراہ کر سکیں۔

اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے، دہشتگردی پر قابو پانے، اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے، تو یقینی طور پر دنیا میں پاکستان کا وہی تاثر جائے گا، جو دہشتگرد چاہتے ہیں، اور یہ پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کی ناکامی ہوگی۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ عسکری سطح پر کام جاری ہے، نظریاتی سطح پر کام کرنا باقی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت، اور روزگار وہ چیزیں ہیں جن کو ریاست کے ہر فرد کے لیے یقینی بنا کر بھی دہشتگردوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔

دہشتگردی کے محرکات بدل رہے ہیں، کیا ریاست بھی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرے گی؟

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 اپریل 2025
کارٹون : 12 اپریل 2025