• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا کو پھانسی

شائع May 12, 2015
متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن صولت مرزا۔۔ ڈان نیوز اسکرین گریب۔
متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن صولت مرزا۔۔ ڈان نیوز اسکرین گریب۔

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے سابق کارکن اور سزائے موت کے منتظر قیدی 47 سالہ صولت مرزا کو بلوچستان کی مچھ جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق پھانسی کے بعد صولت مرزا کی لاش کو ان کے لواحقین کے حوالے کردیا گیا ہے جو کہ ایئر ایمبولنس کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا جائے گی۔

بلوچستان کی مچھ جیل میں موجود سزائے موت کے قیدی صولت مرزا نے اپنی اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد سے پیر کی سہ پہر آخری ملاقات کروادی گئی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گذشتہ ہفتے صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹس جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: صولت مرزا کی اہلخانہ سے آخری ملاقات

صولت مرزا کے یہ بلیک وارنٹ تیسری بار جاری کیے گئے، پہلی بار 19 مارچ اور دوسری بار یکم اپریل کو ان کی پھانسی موخر کی جاچکی ہے۔

صولت مرزا کی اہلیہ نگہت مرزا اور بہن کی جانب سے گزشتہ دنوں اس کی پھانسی پر عمل درآمد رکوانے کے لئے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ سے کئی باردرخواستیں کی گئی تاہم ان درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے صولت مرزا کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔

صولت مرزا کی اہلیہ اور بہن پریس کانفرنس کررہی ہیں — آن لائن فائل فوٹو
صولت مرزا کی اہلیہ اور بہن پریس کانفرنس کررہی ہیں — آن لائن فائل فوٹو

اس سے قبل بھی صولت مرزا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں سندھ ہائیکورٹ نے 2000ء اور سپریم کورٹ نے 2001 میں مسترد کردی تھیں اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے سزائے موت کی نظر ثانی کی درخواست بھی 2004 میں مسترد کردی تھی۔

صولت مرزا کی اہلیہ اور بہن نے کراچی گذشتہ دنوں پریس کانفرنس کے دوران صدر،وزیراعظم اور آرمی چیف سے صولت مرزا کی پھانسی کی سزا کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ مقتولین کے گھر والوں سے معافی نامے کے حوالے سے بات چیت کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: صولت مرزا: پھانسی مؤخرکرنے کی مزید ایک درخواست بھی مسترد

ان کا یہ بھی موقف تھا کہ صولت مرزا نے جرائم میں شریک جن افراد کی نشاندہی اپنے ویڈیوبیان میں کی تھی ان کو بھی مقدمے میں نامزد کرکے تفتیش کی جائے اور اس وقت تک صولت مرزا کی پھانسی کی سزا پرعمل درآمد مؤخر کردیا جائے۔

تاہم عدالتوں کی جانب سے تمام اپیلیں مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سابق کارکن کو سزائے موت دیئے جانے سے قبل جیل اور اس کے ارگرد کے علاقے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

صولت مرزا — فائل فوٹو اسکرین گریب
صولت مرزا — فائل فوٹو اسکرین گریب

لیویز، بلوچستان کانسٹیبلری اور فرنٹیئر کور کے اہلکار صولت مرزا کے تازہ ترین ڈیتھ وارنٹس کے اجراء کے بعد سے جیل کے احاطے میں گشت کرتے رہے۔

جیل ذرائع کے مطابق صولت مرزا نے مچھ کے جوڈیشل مجسٹریٹ سے درخواست کی تھی کہ ان کی سزا ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی جائے۔

یہ خبر بھی دیکھیئے: 'الطاف حسین نے شاہد حامد کو قتل کرنے کی ہدایت دی'

صولت مرزا کو پہلے 19 مارچ کو سزائے موت دی جانی تھی مگر اس سے ایک رات قبل ٹی وی چینیلز پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو فوٹیج میں ان کی جانب سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنماﺅں کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے جانے کے بعد اس سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا۔

بعد ازاں ایک جوائنٹ تفتیشی ٹیم صولت مرزا کے ایم کیو ایم کے رہنماﺅں پر الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔

صولت علی خان جنھیں صولت مرزا کے نام سے جانا جاتا ہے، ایم کیو ایم کے کارکن تھے جنھیں 1999 میں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے 1997 میں اس دور کے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایم ڈی شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اور ایک محافظ کو قتل کرنے پر سزائے موت سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: 'صولت مرزا الطاف حسین سے رابطے میں تھے'

واضح رہے کہ صولت مرزا 1998 میں تھائی لینڈ فرار ہوگئے تھے تاہم والدہ کی برسی میں شرکت کے لیے آنے کے دو ہفتے بعد انہیں چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا۔

سیکیورٹی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے صولت مرزا کو اپریل 2014 میں بلوچستان کی مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ صولت مرزا کو قتل سے قبل پارٹی سے برطرف کیا جاچکا تھا جبکہ صولت مرزا کی جانب سے پارٹی کے دعویٰ کی تردید کی گئی۔

ملک میں دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے افراد کی سزا پر عملدرآمد کا آغاز ایک طویل وقفے کے بعد کیا گیا اور اب تک 100 سے زائد مجرموں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔

سزائے موت پرعملدرآمد کا فیصلہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد کی ہلاکت کے بعد شروع کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں 8 ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmad May 12, 2015 06:57am
کیا فائدہ جب اصل مجرم مزید قاتل تیار کر رہے ہوں۔ صولت کے انجام کے بعد نئی نسل کی آنکھیں کھل جانی چاہیے۔
jalal ud din May 13, 2015 03:39am
Iski phansi se koi faida nhi hova zinda rehata tu kai logo ko benaqab kr sakta tha

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024