میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
شاید 'مشتعل ہجوم کا انصاف دہشتگردی کی بدترین شکل ہے'۔ یا کم از کم وزیرِ داخلہ چوہدری نثار تو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
اسکولوں، ہسپتالوں، چرچوں، اور مسجدوں پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کو بھول جائیں، اور صرف گلیوں میں پھرنے والے غصیلے لوگوں کو حقیقی دہشتگرد قرار دے دیں۔
واقعی؟ چوہدری نثار شاید عوامی انصاف کی تازہ ترین مثال دیکھ کر جذبات میں بہہ گئے ہوں گے، اور انہی جذبات میں آ کر انہوں نے فیصلہ کر لیا ہو گا کہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دو لوگوں کا مارا جانا خودکش حملے سے زیادہ برا ہے۔
مشتعل ہجوم کا تشدد بہت ہی بے تکا اور خطرناک ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں پھر بھی یہ بار بار ہوتا ہے کیونکہ نظامِ انصاف بار بار ناکام ہوا ہے۔ اب سڑکوں پر ہونے والے اس انصاف کے لیے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا۔
جب کچھ سالوں پہلے مشتعل ہجوم نے سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا تھا، تو پاکستانیوں نے بہت شور اٹھایا کہ انہوں نے اس سے زیادہ دل دہلا دینے والا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔
پھر ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی ملک ایک مسیحی جوڑے کے زندہ جلائے جانے پر ماتم کناں نظر آیا۔ اس جوڑے پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور پھر اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر جلا دیا گیا۔
اور جب تین دن پہلے لاہور کے ایک گرجا گھر میں دو دھماکے ہوئے، تو ایک اور مشتعل ہجوم نے مزید انتظار نہ کرنے اور انصاف کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے دو افراد کو زندہ جلا ڈالا۔
پڑھیے: حافظ نعیم کے قتل کا مقدمہ درج
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارے لوگ کسی وجہ سے فوراً ردِ عمل دینے والے، غصیلے، اور اپنی ہی املاک اور اثاثوں کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اسلام پر کوئی بات آئے، تو پاکستان میں سب سے پہلے پیٹرول پمپوں کو آگ لگائی جاتی ہے اور گاڑیوں کے شیشے توڑے جاتے ہیں۔
گاڑیاں جلانا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا غلط اور خطرناک ہے، لیکن مسئلہ تب زیادہ خراب ہو جاتا ہے جب یہی لوگ ایک ناکام نظامِ انصاف کے ہاتھوں مجبور ہو کر انصاف کے نام پر جان لینے لگتے ہیں۔
محمد نعیم، جسے اتوار کے دن مشتعل ہجوم نے پکڑ کر آگ لگا دی، شیشے کا کام کرتا تھا اور جہاں دھماکے ہوئے، اس علاقے میں ہی ایک گھر میں کھڑکیاں لگا رہا تھا۔
نعیم کی غلطی کیا تھی؟ شاید کچھ بھی نہیں۔
لیکن جب پاکستان میں ایک بار ہجوم مشتعل ہو جائے، تو دنیا کی کوئی چیز اسے نہیں روک سکتی۔ نہ اپیلیں، نہ ضمیر، اور پولیس تو خیر بالکل بھی نہیں۔
اس سب کے دوران دہشتگردوں کے چرچوں پر حملوں کے بارے میں مختلف توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ دہشتگرد اب بدلہ لینے کے لیے بیتاب ہیں اور اس لیے وہ عبادت گاہوں جیسے آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ وجہ درست ہو سکتی ہے، لیکن یہ وجہ پیش کر کے کسی بھی طرح مرنے والے 15 افراد کے خاندانوں کو تسکین نہیں پہنچائی جا سکتی۔
ایک عام شہری کو فوجی حکمتِ عملیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ایک عام شہری صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کا مرنا بند ہو جائے۔
اور اس کے لیے فوج کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی کام کرنا ہو گا۔ ایک انتہائی خوفناک حملے کے بعد کمیٹیاں اور نیشنل ایکشن پلان بنانے کا کام، دیر سے ہی سہی لیکن ہو چکا ہے۔ لیکن اب ایکشن میں اور تاخیر کرنا صرف غفلت ہے۔
وزیرِ داخلہ کے مطابق ملک کی ہر عبادت گاہ کو سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک میں ہر سیاستدان، اس کے گھر، اس کے خاندان، اور قریبی و دور کے رشتے داروں کو سکیورٹی فراہم کرنا بالکل ممکن ہے۔
حل یہ نہیں ہے کہ ہر چرچ اور ہر مسجد کے باہر چار پولیس والے تعینات کر دیے جائیں۔ حل یہ ہے کہ دہشتگردی کی جڑیں کاٹی جائیں، بجائے اس کے کہ اس سے آنکھیں چرائی جائیں۔
مزید پڑھیے: ’پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں‘
چوہدری نثار کے بیانات کہ ملک میں امنِ عامہ کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، کوئی اہمیت و وقعت نہیں رکھتی اگر لوگ پشاور حملے کے خوف سے اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال رہے ہیں۔
اگر اسکولوں اور چرچوں پر دہشتگرد حملے ایسے ہی جاری رہیں، تو اس صورتحال کو بہتر نہیں کہا جا سکتا۔
اب چاہے لوگ اس وجہ سے انصاف اپنے ہاتھ میں لے رہے ہوں یا ہمارے ملک کے لوگوں کے ساتھ لاحق کسی اور نفسیاتی مسئلے کی وجہ سے ایسا کر رہے ہوں، جب تک نظامِ انصاف جلد اور حقیقی انصاف فراہم نہیں کرے گا، تب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔
بااثر گھرانوں کے بگڑے ہوئے بچے اپنی مرضی سے جسے چاہیں قتل کرتے رہیں گے۔
مسیحیوں پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر انہیں مارا جاتا رہے گا۔
شیشے کا کام کرنے والے عام لوگ بغیر وجہ کے قتل ہوتے رہیں گے۔
کیوں؟ کیونکہ کوئی ایسا نہیں ہے جو کہ اس سب کو ہونے سے روکے۔
جب یہ سب کچھ ہو رہا ہو، تو حکومت اس شش و پنج میں رہتی ہے کہ آیا اسے روکا جائے یا نہیں۔ اور اقدام میں اس تاخیر کی وجہ سے یہ پاگل پن اپنے عروج پر پہنچتا جا رہا ہے۔
ہماری پولیس نابینا مظاہرین کو مار پیٹ سکتی ہے، لیکن اسی پولیس کا کہنا ہے کہ اگر اتوار کے دن اس نے طاقت کا استعمال کیا ہوتا تو حالات بدترین نہج پر پہنچ جاتے۔ دو معصوم لوگوں کو مارا گیا اور زندہ جلا دیا گیا، کیا یہ بدترین نہج نہیں ہے؟
جانیے: پنجاب پولیس: خدمت اور تحفظ کے لیے نہیں
دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے وسیع و پیچیدہ منصوبوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا نظام بھی لانا چاہیے، جو لوگوں کو انصاف اپنے ہاتھ میں لینے سے روکے۔
نظامِ انصاف کو شفاف اور موثر ہونا چاہیے، تاکہ لوگوں کا اس پر اعتماد بحال ہو۔ لیکن اس سے پہلے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات کو ہونے سے روکیں، اور انہیں اس سطح پر پہنچنے ہی نہ دیں جہاں وہ کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔
نعیم کا خون اسے قتل کرنے والے ہجوم کے ساتھ ساتھ حکومت کے ہاتھ پر بھی ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں