پبلک ٹوائلٹس کی کمی ایک سنگین مسئلہ
حال ہی میں یونیسیف نے ایک وارننگ جاری کی ہے کہ پاکستان میں 4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کو ٹوائلٹ کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں کھلے عام رفعِ حاجت کرنی پڑتی ہے۔ انڈیا اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کھلے عام رفعِ حاجت کرنے پر مجبور ہے۔
4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کے لیے معمول بن چکے اس معمول کے سنگین طبی اور غذائی نتائج ہیں۔ کھلے عام رفعِ حاجت کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں، کہ ہمیں اس مسئلے پر ضرور بات کرنی چاہیے۔
شہرِ لاہور لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے، لیکن یہاں صرف 21 پبلک ٹوائلٹس ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر کی حالت خراب ہے، اور انہیں مرمت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ملک جسے ہر سال کروڑوں ڈالر کی امداد ملتی ہے، وہ اپنے شہریوں کو صاف ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت دینے سے بھی قاصر ہے، جس کی وجہ سے لوگ ٹوائلٹ کی تلاش تک حاجت روکنے پر مجبور رہتے ہیں۔
پڑھیے: آئی ڈی پیز کو صحت کے مسائل کا سامنا
اس سے کئی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں جن پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
پاخانہ رک جانا
جب بچوں کو مختلف نفسیاتی و سماجی وجوہات کی بنا پر مناسب انداز میں رفعِ حاجت کی سہولت میسر نہیں آتی، تو وہ پاخانہ روکنے لگتے ہیں، اور ایسی کسی بھی جگہ پر رفعِ حاجت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں جہاں انہیں شرمندگی محسوس ہو یا وہ مطمئن نہ ہوں۔ اس کے وجہ سے ان میں خود بخود پاخانہ رکنے لگ جاتا ہے۔
بچوں کے لیے کھلے عام رفعِ حاجت کرنا بہت ہی شرمناک اور ذہنی پریشانی کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں Encorpresis کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اور بچوں کے اپنے کپڑے خراب کرنے کی وجہ بنتا ہے۔
بڑی آنت (کولون) عام طور پر پاخانے میں سے پانی نکال لیتی ہے، لیکن آنتوں میں بہت دیر تک پاخانہ باقی رہنے سے قبض ہوجاتی ہے۔ پاخانہ اتنا سخت ہوجاتا ہے کہ اس کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بڑی آنت پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے bowel کی حرکت کا احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کے نتیجے میں پتلا پاخانہ اکثر بہہ جاتا ہے اور بچوں کے کپڑے خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں، اس کا ایک فرد کی صفائی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہاتھ اور کپڑے خراب ہونے سے کئی بیماریاں بڑی آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔
قبض
قبض کے نتائج کافی خطرناک ہوسکتے ہیں اور جن پر عام طور توجہ نہیں دی جاتی۔
مزید پڑھیے: گاجر کے چار حیرت انگیز فوائد
ہماری بڑی آنت میں ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو ہماری آنتوں کو صحتمند حالت میں رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ قبض کی وجہ سے خراب بیکٹیریا پروان چڑھتے ہیں جس کی وجہ سے صحت متاثر ہوتی ہے۔ جب سخت پاخانہ بڑی آنت میں زیادہ دیر تک رہے، تو اچھے اور مددگار بیکٹیریا ڈسٹرب ہوتے ہیں۔
قبض کی وجہ سے پیٹ میں درد بڑھتا ہے جبکہ بھوک بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر قبض کا علاج نہ کیا جائے تو زور دینے اور رفعِ حاجت کی کوشش کرنے کی وجہ سے ریکٹم کو نقصان پہنچتا ہے اور خون بھی نکل سکتا ہے۔
بچوں میں بڑھوتری کا رکنا
ایک بچے میں بڑھوتری کے رکنے کو اس طرح ناپا جا سکتا ہے کہ اس کی عمر کے حساب سے اس کا قد ناپا جائے اور باقی آبادی کے اوسط قد سے موازنہ کیا جائے۔ بچے کا قد اپنی عمر کے باقی بچوں کے اوسط قد سے جتنا کم ہوگا، بچے کی بڑھوتری اتنی ہی کم ہے۔
کم قد اور کمزور جسم بچوں میں پروٹین انرجی والی غذائیت کی کمی کا اشاریہ ہے۔
غذائیت کی کمی کو بڑھوتری سے ملایا جا سکتا ہے۔ کھلے عام رفعِ حاجت کرنے کی وجہ سے بچے خود کو صاف نہیں رکھ پاتے اور جس کی وجہ سے پانی بھی خراب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں میں شدید ڈائریا جنم لیتا ہے اور کھانے سے غذائیت حاصل کرنے کی قابلیت کمزور پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے ذہنی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور دماغی کمزوری بھی جنم لیتی ہے۔
پاکستان میں اب صحت و صفائی اور مزید ٹوائلٹس کی تعمیر ایک ترجیح بن جانی چاہیے۔
جانیے: پاکستان: ڈائریا سے اموات میں پانچواں نمبر
اپنے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات بھی نہ دے پانا غیر انسانی بھی ہے اور ان کی ذات کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔
لوگوں میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور ٹوائلٹس کی سہولت میسر کروانا اس مسئلے کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
کھلے عام رفعِ حاجت کا خاتمہ کرنا چاہیے، لیکن اس کے لیے بہت کوششیں درکار ہوں گی، رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، بہتر سہولیات فراہم کرنی ہوں گی، اور لوگوں میں صحت و صفائی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔
تبصرے (5) بند ہیں