شکار کوئی قابلِ تعریف چیز نہیں!
اٹلی کا ایک شہری 5157 کلومیٹر کا سفر کر کے پاکستان آیا۔ پھر 234 میل شمال کا سفر کر کے گلگت بلتستان پہنچا۔ پہاڑوں میں ٹریکنگ کر کے پاک چین سرحد کے نزدیک ایک وائلڈ لائف پارک میں پہنچا، اور 8000 ڈالر ادا کیے، صرف ایک بھیڑ کا شکار کرنے کے لیے۔
ایک بار پھر انسان ہی فوڈ چین میں سب سے اوپر ہے۔
سوشل میڈیا پر اطالوی شہری بوئتی گیان کارلو کے ایک نیلی بھیڑ، جس کے سینگ 32 انچ لمبے تھے، کے شکار کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔ یہ سینگ پاکستان میں سب سے بڑے اور دنیا میں دوسرے نمبر پر تھے۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ اس واقعے پر میرا تبصرہ کافی سخت ہوگا وہ اس لیے کہ مجھے ویسے ہی شکار پسند نہیں ہے۔ شکار کو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اور جو خواتین و حضرات اس میں حصہ لیتے ہیں انہیں جس طرح بہادر اور جانباز قرار دیا جاتا ہے، اس کے خلاف میرے اس تبصرے میں کسی شکاری کے خلاف ذاتی عناد نہیں ہوگا۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ نوعِ انسانی کا نیا فلسفہ تشکیل دینے میں اس طرح کے شکار کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔ اور وہ نیا فلسفہ یہ ہے کہ بلند ترین پہاڑوں سے لے کر گہرے ترین سمندروں تک، ہمیں جہاں کہیں بھی کوئی جانور ملے گا، ہم اسے مار ڈالیں گے، اور اس پر فخر بھی کریں گے۔
ایک زمانہ تھا جب ہزاروں سال پہلے ہمارے آباؤ اجداد نیزوں اور تیروں سے شکار کیا کرتے تھے، لیکن ان کی مجبوری یہ تھی کہ یہ ان کی خوراک کا ذریعہ تھا۔ کچھ حد تک میں گوشت، کھال، یا کسی اور انسانی مقصد کے حصول کے دوران ہونے والی جانوروں کی اموات بھی سمجھ سکتا ہوں۔
پڑھیے: جانور کا دشمن انسان
لیکن مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس مخصوص نفسیات سے ہے جس میں جانور کو بلاوجہ قتل کیا جاتا ہے۔
اب ہمیں کھانے کے لیے شکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر بھی شکار پر لاکھوں روپے لگائے جاتے ہیں تاکہ صرف ایک بے ضرر سے جانور کو گھاس چرتے ہوئے مار کر اپنی انا کی تسکین کی جا سکے۔ اس شکار سے صرف ایک چیز ملتی ہے، اور وہ ہے جانور کے جسم کا ایک ٹکڑا جسے دیوار پر آویزاں کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس دن کی یاد دلاتا رہے جب کسی نے کسی کو مار دیا تھا۔
جب میں نے کہا کہ شکار پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مارخور کو مارنے کے لیے شکاری 62,000 ڈالر تک ادا کرتے ہیں۔
اور قوانین کے مطابق شکار کا یہ مہنگا لائسنس صرف ایک شاٹ کی اجازت دیتا ہے۔ جانور کو دوسری گولی مارنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
سعودی شاہی خاندان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستانی کنزرویٹریز اور آس پاس کے علاقوں پر کافی پیسہ خرچ کرتے ہیں تاکہ ہوبارا بسٹرڈز کا شکار بھی کر سکیں اور مقامی افراد کے سامنے اچھے بھی نظر آئیں۔
ایک گھناؤنا مذاق یہ بھی ہے کہ شکار کے لائسنس فروخت ہونے سے جو رقم ملتی ہے، اس کا 80 فیصد حصہ کنزرویٹریز پر اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا ہم یہی منطق استعمال کرتے ہوئے امیر لوگوں کو اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ کانگو کے غریب لوگوں پر ایسے ڈارٹ ماریں جو جان لیوا نہ ہوں۔ اور پھر اس سب سے حاصل ہونے والے پیسے سے کانگو کے غریب لوگوں کو کھانا اور پینے کا صاف پانی فراہم کریں۔
ہم جن چیزوں کو پسند کرتے اور جن پر خوش ہوتے ہیں، وہ یہ بتاتی ہیں کہ ہم کیا ہیں۔ کیا ہم بھی روم کے انہی لوگوں کی طرح ہیں جو کولوزیم میں ہونے والے موت کے کھیلوں پر خوش ہوتے تھے؟
ہم میں سے جو لوگ جانوروں کے شکار پر خوش ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں