سینیٹ انتخابات ایک مذاق
حالیہ سینیٹ انتخابات نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو سیاسی معاملات چلانے میں کسی قسم کی مہارت نہیں ہے۔
سب سے پہلا اشو تحریکِ انصاف نے اٹھایا، وہ بھی ایک غیر اہم مسئلہ، یعنی اپنے پارٹی ممبران کو اپنے ہی سینیٹ امیدواروں کو ووٹ دینے کے بجائے آزاد امیدواروں کی بولیوں پر ووٹ دینے سے روکنے میں ناکامی۔
اس کے بعد بائیسویں ترمیم کا شوشہ چھوڑا گیا، جو صرف مسلم لیگ ن کی جانب سے تحریکِ انصاف کو پارلیمنٹ میں واپس لینے کا ایک حربہ تھا، جبکہ تاثر یہ گیا کہ مسلم لیگ ن نے تحریکِ انصاف کو شرمندگی اٹھائے بغیر پارلیمنٹ میں آنے کا موقع دیا۔ اور اس کا اختتام راجہ ظفر الحق اور سینیٹر ساجد میر جیسے لوگوں کے ٹیکنوکریٹ منتخب ہونے پر ہوا۔
مجموعی طور پر سینیٹ الیکشن نے قوم کو یہ بات باور کروا دی ہے کہ کس طرح ہمارے سیاستدان اب بھی چھوٹی چھوٹی باتوں اور غلط ترجیحات پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے فوراً بعد اس کامیڈی کا دوسرا پارٹ شروع ہوا، یعنی سینیٹ چیئرمین کا انتخاب۔
مسلم لیگ ن کا خیال یہ تھا کہ تمام مسائل سے خود کو دور رکھنے کی وجہ سے وہ اپنا کھیل ایسے کھیل سکے گی، کہ اسے اپنی مرضی کا سینیٹ چیئرمین منتخب کروانے کے لیے مطلوبہ ووٹ مل سکیں۔
مسلم لیگ ن جو بات نہیں سمجھ پائی، وہ یہ کہ پنجاب اور پاکستان کے باقی لوگوں کے برعکس آصف علی زرداری نے ان کی حکمتِ عملی کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا۔
اگلے تین دنوں میں جو کچھ ہوا، وہ پاکستانی سیاست کا مضحکہ خیز ترین ڈرامہ تھا۔ آصف علی زرداری اچانک منظرِعام پر آئے، تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن کے پاس گئے، خاموشی سے اپنی پسند کی چیز لی، اور چلتے بنے۔
اور جب تک ان دونوں کو اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، تب تک زرداری سینیٹ چیئرمین شپ اپنی پارٹی میں لانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ پنجاب کی 11 سینیٹ سیٹوں پر کلین سوئپ اور 22 ویں ترمیم کو اگر ایک طرف رکھیں تو یہ واضح ہے کہ مسلم لیگ ن مئی 2013 سے اب تک اپنی کمزور ترین پوزیشن پر ہے۔
دیکھنے والوں کے لیے یہ پورا کھیل کس قدر مزیدار تھا، اس سے قطع نظر جو زیادہ اہم سوال ہے وہ یہ کہ:
ہمارے پاس سینیٹ انتخابات ہوتے ہی کیوں ہیں؟
سینیٹ انتخابات کی ضرورت ہی کیا ہے جب یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ ہر جماعت کو صوبے میں اپنی نمائندگی کے تناسب سے ہی سیٹیں ملنی ہیں؟
اس کے علاوہ یہ بھی ایک مشہور حقیقت ہے کہ امیر گھرانے سینیٹ کی سیٹیں خرید لیتے ہیں کیونکہ انہیں 'سینیٹر' کہلوانا پسند ہوتا ہے۔ وہ سیاست میں حصہ بھی لینا چاہتے ہیں لیکن عام انتخابات کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتے۔
تو ہمیں بھی سینیٹ انتخابات کے جھمیلوں میں پڑنے اور دوغلا پن دکھانے کے بجائے نئے قوانین وضع کرنے چاہیئں: سینیٹ کی آدھی سیٹوں کی کھلی بولی لگے، اور باقی سیٹوں پر سیاسی جماعتیں خود ہی صوبائی نمائندگی کی بنا پر سینیٹرز نامزد کردیں۔
اس طرح یہ ہوگا کہ آدھی سینیٹ ان لوگوں پر مشتمل ہوگی جن کی ماننا اور جنہیں ساتھ رکھنا سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہوگا، اور باقی کی سیٹوں سے جمع ہونے والا پیسہ ان صوبوں کو دیا جاسکتا ہے جو سینیٹ کی سیٹیں فروخت کریں۔ صوبوں کی جانب سے سینیٹ کی سیٹیں فروخت کرنے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ صوبوں کے پاس کچھ فنڈز ہی اکٹھے ہوجائیں گے۔
ذرا اس بارے میں سوچیں: عدم تحفظ کے شکار امیر لوگ چاہتے ہیں کہ پیسہ بنانے کے لیے سب کچھ کرنے کے بعد اب انہیں اہمیت دی جائے۔ میرے فارمولے کے ذریعے وہ یہ چیز حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ذاتی اہمیت محسوس کر سکتے ہیں اور یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے ان کی بات وزن رکھتی ہے۔
پارٹیاں ان عمر رسیدہ افراد کے لیے جگہ بنا سکتی ہیں جو اب تک یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ریٹائر ہونے اور نئے لوگوں کو جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور ان لوگوں کی بھی جگہ بن سکتی ہے جو کبھی بھی پارٹی کی جان نہیں چھوڑتے اور ہمیشہ چپکے رہتے ہیں، لیکن عام انتخابات میں کھڑے ہونے جیسی شخصیت بھی نہیں رکھتے۔
اس طرح ان سب ہی لوگوں کی جیت ہوگی۔
مجھے امید ہے کہ ہم اسے کھلے عام قبول کر کے اپنا دوغلا پن چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن جب تک ایسا ہوتا ہے، تب آئیں اس بات کا مزہ لیں کہ کیسے زرداری مسلم لیگ ن سے جیتتے جارہے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں