رضا ربانی پاکستان کے 'مسٹر کلین'
میاں رضا ربانی چھ برس قبل ہی سینیٹ چیئرمین بن جاتے اگر وہ اس وقت صدر آصف علی زرداری کی گڈ بک میں شامل ہوتے۔
اگرچہ اب بھی وہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے لیے بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں مگر اس بار آصف علی زرداری نے رضا ربانی کو اپوزیشن کے سینیٹ چیئرمین کے لیے متفقہ امیدوار کے طور پر نامزد یہ جانتے ہوئے کیا کہ حکمران مسلم لیگ نواز کے لیے رضا ربانی جیسی ساکھ رکھنے والے ایک سیاستدان کی نامزدگی کی مخالفت مشکل ہوجائے گی۔
رضا ربانی اور عام عوام کے لیے یہ شریک چیئرمین کی جانب سے ایک اور کامیابی کا تمغہ اپنے سینے پر سجانا ہے مگر آصف زرداری کے لیے یہ ایک پتھر سے دو پرندوں سے شکار کرنا ہے۔
ان کا بطور چیئرمین سینیٹ انتخاب یقیناً اپوزیشن پی پی پی کے لیے ایک کامیابی ہے اور آصف زرداری کی سیاسی فراست کا ایک اور ثبوت ہے جبکہ وہ ایوان بالاک میں مسلسل تیسری مدت کے لیے بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکیں گے۔
مگر اس سے ہٹ کر بھی آصف زرداری کو ایک اور فائدہ بھی ہوگا، کیونکہ رضاربانی پی پی پی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے، اس اقدام سے پی پی کے شریک چیئرمین کو اپنے کسی بااعتماد ساتھی کو اس پوزیشن پر تعینات کرکے پارٹی پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔
ایسا نظر آتا ہے کہ رضا ربانی کی نامزدگی سے آصف زرداری نے عقلمندانہ انداز سے اپنے ایک کانٹے کو ہٹا دیا ہے۔
رضا ربانی پی پی پی کے ان پرانے محافظوں میں سے ایک ہیں جنھیں 27 دسمبر 2007 کے بعد بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری اور ان کی مفاہمتی سیاست کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔
وہ پی پی پی کی کور کمیٹی کے اجلاسوں میں باآواز بلند اپنے موقف کا اظہار کرتے خاص طور پر آصف زرداری کے صدر مملکت بن جانے کے بعد اور ان کے مخصوص معاملات میں پارٹی قیادت کے خلاف باغیانہ خیالات سامنے آتے رہے جن میں حال ہی میں 21 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کا معاملہ بھی شامل ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دی گئی۔
لاہور میں پیدائش اور کراچی میں پلنے بڑھنے والے 61 سالہ رضا ربانی 1993 کے بعد سے چھ بار سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں، وہ بے نظیر بھٹو کے ایک قریبی ساتھی تھے جنھوں نے انہیں 1997 میں پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور 2005 میں سینیٹ میں اپوزیشن لینڈر تعینات کیا۔
بااصول اور پاکستانی سیاست کے " مسٹر کلین" کے طور معروف رضا ربانی کے بے نظیر بھٹو سے بھی 2007 میں اختلافات ہوگئے تھے جب پی پی چیئرپرسن نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے قومی مفاہمتی آرڈنینس پر ایک ڈیل کرلی تھی، اس وقت رضا ربانی کا ماننا تھا کہ یہ میثاق جمہوریت کی روح کے خلاف ہے جس پر پی پی پی اور نواز لیگ نے دستخط کیے تھے۔
وہ نہ صرف فوجی آمریت کے سخت مخالف ہے بلکہ سویلین امور میں فوج کے کسی قسم کے کردار کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور وہ آمریت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جمہوریت بحالی اتحاد کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرچکے ہیں۔
وہ اس وقت سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر تھے جب پیپلزپارٹی نے 2008 میں عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وفاق میں اپنی حکومت قائم کی، انہوں نے ابتدا میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف سے حلف نہیں لینا چاہتے تھے۔
پیپلزپارٹی نے انہیں سینیٹ میں قائد ایوان بنادیا اور پرویز مشرف کی روانگی کے بعد وہ بین الصوبائی رابطوں کے وفاقی وزیر بن گئے۔
مگر مارچ 2009 میں آصف علی زرداری نے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کو منتخب کرتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین کے لیے نامزد کردیا جس کے بعد شکستہ دل رضا ربانی کابینہ اور سینیٹ میں قائد ایوان کے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔
تین ماہ بعد آئینی، قانونی اور پارلیمانی امور میں مہارت رکھنے والے رضا ربانی کو آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا، اس کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں 2010 میں 18 ویں آئینی ترمیم وجود میں آئی۔
اس ترمیم کی منظوری کے بعد وہ اس کی عملدرآمد کے حوالے سے قائم کمیشن کے چیئرمین بن گئے۔
انہیں ایک بار پھر وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا مگر وہ مئی 2011 میں آصف زرداری کی جانب سے مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہوگئے اور مارچ 2012 میں انہیں ایک بار پھر سنیٹ چیئرمین شپ کے لیے نظر انداز کردیا گیا اور پی پی شریک چیئرمین نے نیئر حسین بخاری کو نامزد کردیا۔
رضا ربانی قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔
مئی 2013 میں پیپلزپارٹی کو عام انتخابات میں شکست کے بعد آصف زرداری نے رضا ربانی کو جماعت کا ایڈیشنل سیکرٹری جنرل بنادیا اور انہیں ملک بھر میں پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے کا ٹاسک دیا، جبکہ وہ 2013 میں پی پی کے صدارتی امیدوار بھی بنے مگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے نواز لیگ کی درخواست پر انتخابی شیڈول تبدیل کیے جانے پر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔
مہنگے سگاروں سے محبت کے حوالے سے معروف رضا ربانی نجکاری اور ڈاﺅن سائزنگ کے خلاف موقف کی بناءپر ملک کے مزدور طبقے میں بہت زیادہ قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی میاں عطا ربانی کے صاحبزادے رضا ربانی نے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں اور ستر کی دہائی میں پی پی پی اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک رہے جبکہ ضیاءدور میں جمہوریت کے لیے جدوجہد پر جیل بھی کاٹی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے قانون کی پریکٹس شروع کردی اور پیپلزلائرز فارم کراچی اور بعد میں سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔
وہ 1988 میں وزیراعلیٰ کے مشیر بھی رہے جبکہ پہلی بار 1993 میں سینیٹر بنے جس کے بعد انہیں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بھی مقرر کیا۔
اپنے پارلیمانی کام پر انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔