• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سلمان تاثیر قتل کیس، ممتاز قادری کی سزائے موت برقرار

شائع March 9, 2015 اپ ڈیٹ March 10, 2015
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

اسلام آباد: سلمان قادری قتل کیس میں سزائے موت کے خلاف ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کل جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ممتاز قادری کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ہونے والے سزائے موت کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

آج وہ فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔ اس فیصلے کے تحت ممتاز قادری کے خلاف دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئی ہیں۔

اس سے قبل ممتاز قادری کے خلاف دو مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی، جس میں ایک سزا دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھی، جبکہ دوسری سزا تین سو دو کے تحت تھی، اس فیصلے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت سنائی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

دفعہ تین سو دو کے تحت سنائی گئی سزائے موت کے خلاف اپیل کو عدالت نے خارج کردیا ہے۔


مزید پڑھیے: ممتاز قادری کے وکلاء کو جنت کی امید


یاد رہے کہ اکتوبر 2011ء میں راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج پرویزعلی شاہ نے اڈیالہ جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے بعد ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت اور دولاکھ جرمانے کی سزاسنائی تھی۔

اس وقت عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ کسی کو کسی بھی جواز پر قتل کا لائسنس نہیں دیا جاسکتا۔

چار جنوری 2011ء میں ممتاز قادری نےسلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ایک ہوٹل کے باہرفائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

اس مقدمے کے فیصلہ کے موقع پر ایک خصوصی سکیورٹی پلان ترتیب دیا گیا تھا، جس کے تحت ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے سکیورٹی خدشات کے باعث اضافی نفری تعینات کی گئی تھیں۔

ہائیکورٹ کی طرف سے آنے والے تمام داخلی و خارجی راستوں کو بلاک کردیا گیا تھا اور عدالت کے اردگرد قائم عمارتوں پر کمانڈوز تعینات کئے گئے تھے۔

ایلیٹ فورس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد کوہسار مارکیٹ میں چار جنوری 2011ء کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں اکتوبر 2011ء میں مجرم قرار دیا تھا اور انہیں دو مرتبہ سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔

پاکستان میں توہین رسالت کا معاملہ انتہائی حساس مسئلہ بن گیا ہے، جہاں 97 فیصد آبادی مسلمان ہے اور غیرمصدقہ دعووں کی بنیاد پر ہجوم کے تشدد کے واقعات عام ہیں۔

ایک ماہ قبل اس مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتی بینچ نے وکیلِ صفائی سے سوال کیا تھا کہ کیا ایک پولیس کانسٹبل اپنے عقائد کی بنیاد پر کسی فرد کے خلاف کوئی فیصلہ لے سکتا ہے یا اس کو سزا سنا سکتا ہے یا نہیں؟

روز جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ممتاز قادری کے وکلاء کی ٹیم سے سوال کیا تھا کہ وہ عدالت کو سمجھائیں کہ ’’ایک پولیس اہلکار کسی فرد کے بارے میں یہ تعین آخر کس طرح کرسکتا ہے کہ وہ گستاخ تھا یا نہیں۔‘‘

انہوں نے پوچھا ’’توہین رسالت کے قوانین کی موجودگی میں ایک فرد کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کس طرح جواز پیش کرسکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے وکلاء سے کہا کہ اگر ممتاز قادری کو یقین تھا کہ گورنر نے ایسا کچھ غلط کیا ہے تو انہوں نے سلمان تاثیر کے خلاف درخواست دائر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟۔


مزید ملاحظہ کیجیے: ممتاز قادری کے 90 وکیل


ججز نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو کل کو کوئی شخص کسی فرد کا اس بات کی سزا دیتے ہوئے اس کی زندگی کا خاتمہ کرسکتا ہے کہ اس نے مذہبی کلمات ادا نہیں کیے یا سبز رنگ کی پگڑی نہیں پہنی۔

جسٹس نور الحق این قریشی نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ اگر اس طرح کے اقدام کو نظرانداز کردیا گیا تو یہ ہر ایک کو مذہب کے نام پر ’’قتل کرنے کا لائسنس‘‘ دینے کے مترادف ہوگا، جس سے قاتلوں کو یہ چھوٹ مل جائے گی کہ وہ اپنے جرائم کا جواز پیش کے لیے مقتول کو ملحد قرار دے دیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے ’’کسی بھی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتے۔ ریاست میں ایک نظام موجود ہے، اور دستیاب ثبوت کی بنیاد پر ہی مناسب فورم کے تحت کسی شخص پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔‘‘

فاضل جج نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں اضافی احتیاط کی ضرورت تھی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک حالیہ مقدمے میں ایک مذہبی پیشوا نے من گھڑت شہادت کے ذریعے ایک کم سن مسیحی بچی کو توہین رسالت کے کیس میں ملؤث کرنے کی کوشش کی۔


مزید ملاحظہ کیجیے: ممتاز قادری کیس کا اہم ریکارڈ پراسرار طور پر 'غائب'


اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے رواداری کی تعلیم دی ہے، اور یاد دلایا کہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو کچھ نہیں کہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روزانہ کچرہ پھینکا کرتی تھی، اور رواداری اور حسن اخلاق کے ذریعے اس کے دل کو تبدیل کردیا۔

جسٹس نور الحق قریشی نے کہا تھا کہ ایک انسان کی زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ مقدس ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اس بات کی جانچ کرے گی کہ یہ قتل ، ایک اقدامِ قتل تھا یا نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Mar 09, 2015 07:53pm
سپریم کورٹ میں اپیل ھوگا اس کے بعد کیس کا فیصلہ ھوگا ہائی کورٹ نے دھشتگردی کے دفعات ہٹا کر ملزم کو موقعہ دیا کیونکہ موجودہ حالات میں صرف دھشتگردی کے مجرم کو پھانسی دی جاتی ھے حال ہی میں راولپنڈی کے پھانسی کے مجرم کو سزا دینے سے منع کردیاگیا تھا

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024