مٹھی: جہاں ہندو روزہ رکھتے ہیں اور مسلمان گائے ذبح نہیں کرتے
دہشتگردی اب پاکستان کی شناخت بن چکی ہے۔ مقامی اور عالمی نیوز چینلز پر ہم روزانہ انتہاپسندوں کے ہاتھوں اقلیتوں کے قتل، مندروں، گرجا گھروں، اور امام بارگاہوں پر حملوں، اور ہندوؤں اور عیسائیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی کی خبریں سنتے ہیں۔
لیکن مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی، کہ صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کا ایک چھوٹا سا شہر ایسا بھی ہے، جہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
مٹھی پاکستان کے گنے چنے ایسے علاقوں میں سے ہے جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں۔ وسیع و عریض صحرا کے اس خاموش اور پرسکون حصے میں ہندو اور مسلم بٹوارے سے لے کر اب تک بھائی چارے اور امن و محبت سے رہ رہے ہیں۔
نومبر 2014 میں مجھے امریکا میں تین ہفتوں کے ایک فیلوشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ وہاں میری بیچ میں ایک شخص سندھ سے بھی تھا۔ اس نے اپنا تعارف اس طرح کروایا:
'میں ایک سندھی ہندو ہوں، لیکن اپنی پوری زندگی مسلمانوں کے ساتھ گزاری ہے، اور اس لیے میں رمضان میں ان کے ساتھ روزے رکھتا ہوں۔ اور جب ماہِ محرم آتا ہے، تو ہم ہندو لڑکے محرم کا جلوس نکالتے ہیں کیونکہ صوفی ازم نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔'
ایک ہندو کے رمضان کے روزے رکھنے یا محرم کا جلوس نکالنے کا سن کر میں گنگ رہ گیا۔ کیا واقعی یہ سچ تھا؟
پھر اس سال فروری میں میرا تھرپارکر کے قحط زدہ علاقوں میں ریلیف کے کام کے سلسلے میں جانا ہوا۔ ٹرین اور سڑک کے ذریعے 20 گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم مٹھی پہنچ گئے، اور یہاں میں نے وہ دیکھا جو میں نے پاکستان کے کسی علاقے میں دیکھنے کی توقع نہیں کی تھی۔
مٹھی بالکل اپنے نام کی طرح میٹھا ہے۔ یہاں کی تقریباً 80 فیصد آبادی ہندو ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمان ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے گائے ذبح نہیں کرتے، اور ہندو ماہِ محرم کے تقدس کے پیشِ نظر کبھی بھی کوئی شادی یا خوشی کی تقریب منعقد نہیں کرتے۔
نہ صرف یہ، بلکہ مٹھی کے ہندو بھی مسلمانوں کو رمضان میں کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے نظر آتے ہیں، اور دونوں ہی عید اور دیوالی پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ مٹھی میں جرائم کی شرح 2 فیصد ہے، اور کسی نے کبھی بھی مذہبی عدم برداشت کا کوئی واقعہ نہیں دیکھا ہے۔
مٹھی کے مقامی افراد سے بات کر کے مجھے معلوم ہوا کہ یہاں محرم میں ہندو ذاکر مجالس پڑھتے ہیں، جو کہ پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ اور جیسا کہ مجھے امریکا میں میرے دوست نے بتایا تھا، میں نے ہندوؤں سے ماہِ محرم کی کہانیاں سنیں جب وہ جلوس کے شرکاء کو مدد فراہم کرتے ہیں اور جلوسوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمان صرف 20 فیصد ہوں، وہاں یہ بہت ہی حیران کن بات ہے۔
تھر کے ایک مسلمان نے مجھے بتایا کہ ان کے گاؤں میں ہندو اور مسلمان دہائیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کبھی بھی مذہبی عدم برداشت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ جب ہندو اپنے مندر میں عبادت میں مصروف ہوں، تو لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاتی، اور جب نماز کا وقت ہو، تو مندر کی گھنٹیاں نہیں بجائی جاتیں۔ کوئی بھی رمضان میں سرِ عام نہیں کھاتا اور گاؤں کا ہر فرد ہولی میں حصہ لیتا ہے۔
میں نے سندھ میں مذہبی رواداری کی کئی کہانیاں سنی تھیں، لیکن یہ سب کچھ خود ہوتے ہوئے دیکھنا بہت ہی زبردست تجربہ تھا۔ مٹھی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو بھائی چارہ ہے، وہ سندھ کے صوفی کلچر اور مذہبی رواداری کا بہترین نمونہ ہے۔
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب صرف گرجا گھروں میں دھماکے، مندروں کو تباہ کرنا، طالبانائزیشن، اقلیتوں کا قتل، اور زبردستی مذہب تبدیلی ہے، تو میں چاہوں گا کہ آپ ایک بار مٹھی ضرور جائیں۔
مٹھی مذہبی رواداری کو نئے معنی دیتا ہے۔ باقی تمام جگہوں پر جو بھی مذہبی عدم برداشت ہے، اس نے مٹھی میں ہندو مسلم بھائی چارے کو بالکل نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ یہاں یہ لوگ ساتھ رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، اور کام کرتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق یہ ان کے کلچر کا حصہ ہے۔
لکھاری ہیومنز آف پاکستان کی ٹیم کے ساتھ۔ انتہائی بائیں جانب نظام ہیں جبکہ انتہائی دائیں جانب ماما وشن ہیں۔ نظام اور وشن کی دوستی 25 سال پرانی ہے اور دونوں مل کر ایک سماجی تنظیم چلاتے ہیں جو تھرپارکر کے شہریوں کو خون کے عطیات اور ایمبولینس سروس فراہم کرتی ہے۔ |
مذاہب کے درمیان اختلافات موجود ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان اختلافات کو بنیاد بنا کر مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
لوگ ساتھ رہ سکتے ہیں، اور ساتھ رہتے ہیں۔ صرف نفرت کرنے والے ساتھ نہیں رہ سکتے، اور نفرت کرنے والے ہر مذہبی گروپ میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں انہیں پاکستان کے خوبصورت کلچر پر قابض نہیں ہونے دینا چاہیے۔
ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا پاکستان کے کئی حالیہ مسائل کا حل ہے۔ مذاہب میں اختلاف انسانوں کے درمیان اختلاف کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
مٹھی رات کے وقت |
— تصاویر بشکریہ لکھاری
تبصرے (2) بند ہیں