ڈیزل چھوڑیں، سولر پینل لگائیں!
پاکستان میں توانائی بحران کے پیش نظر کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ڈیزل پر چلنے والے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کر لیں، لیکن بہت تھوڑے کسان ہی اس پر آنے والے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔
ارشد خان نے حال ہی میں ڈیزل پر آنے والے اخراجات کو بچانے کے لیے ڈیزل پر چلنے والے ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر منتقل کیا ہے۔ وہ پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ایک ضلع اٹک میں اٹھارہ ہیکٹر کے رقبے پر گندم، سبزیاں، مونگ پھلی اور گنا کاشت کرتے ہیں۔ گذشتہ سال اپریل میں جب ان کا ڈیزل پر آنے والا خرچہ 29,000 روپے ماہانہ سے بڑھ گیا تو انہوں نے اپنے ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان میں اس وقت گیارہ لاکھ سے زائد زرعی ٹیوب ویل ہیں، جن میں سے صرف تیس فیصد بجلی پر چلتے ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے کسانوں کے پاس اپنی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے اپنے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ پاکستان میں ٹیوب ویل ہر سال تقریباً 2,000 ملین لیٹرز ڈیزل استعمال کرتے ہیں۔ شمسی توانائی کے طویل المدتی فوائد تو بہت زیادہ ہیں، لیکن اس کا ابتدائی خرچہ تقریباَ اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔ ارشد خان اب دوسرے کسانوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
پاکستانی حکومت نے ملک میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے حال ہی میں گھروں کی چھتوں پر شمسی پینل لگانے، قومی بجلی گھر سے جڑی شمسی توانائی، اور شمسی توانائی کی درآمد پر ٹیکس کی چھوٹ جیسے اقدامات کی منظوری دی ہے۔ اگلے چند ماہ میں، پاکستان پہلی دفعہ قائد اعظم سولر پارک سے 100 میگا واٹس بجلی حاصل کرے گا اور پچاس میگا واٹس مزید بھی ایک سال کے اندر اندر قومی بجلی گھر میں شامل کیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور کا حصہ ہے، جس کے مطابق چائنہ پاکستان میں 33 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
تاہم ملک میں شمسی توانائی کے شعبے کو فی الحال کامیاب ہونے میں بڑا وقت لگے گا کیونکہ متبادل توانائی ترقی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر اسجد امتیاز علی کا کہنا ہے کہ اس وقت شمسی توانائی کی پیداوار سرکاری سطح پر صفر ہے کیونکہ تمام منصوبے پرائیوٹ شعبے میں لگائے جا رہے ہیں۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین فیض محمد بھٹہ نے حال ہی میں حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے، اسکا یہ بھی کہنا تھا کہ حکو مت کوسن 2026تک کے لیے 20,000میگا واٹس کا ٹارگٹ مختص کرنا چاہیے۔
عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باوجود اسجد امتیاز علی کا یقین ہے کہ پاکستان کو بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے کے لیے متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔
پاکستان کی 2013 کی نیشنل پاور پالیسی کے مطابق ملک اس وقت اپنی ضرورت کی آدھی بجلی مہنگے تھرمل توانائی کے وسائل سے حاصل کررہا ہے جس کی وجہ سے مہنگی بجلی صارفین کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر ٹیوب ویل یا تو نیشنل گرڈ پر منحصر ہیں، یا ڈیزل کا استعمال کرتے ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی |
لیڈز پاکستان کے ساتھ منسلک ماحولیاتی اور توانائی ماہر ڈاکٹر قمرالزمان کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی زراعت کے شعبہ کے لیے بہت ہی قابل اعتماد اور قابل عمل متبادل ہے، ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنے ڈیزل پر چلنے والے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی ٹیوب ویل چلانے کے لیے صرف شمسی پینلوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کسان اس پر آنے والے اخراجات کو ڈیزل اور بجلی کے بلوں پر خرچ ہونے والے پیسوں کی بچت کر کے چار سال کے اندر اندر پورا کر سکتا ہے۔
تاہم اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ صرف تھوڑے سے کسان ہی اس پر آنے والے ابتدائی اخراجات اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین محمد انور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تقریباً پچاسی فیصد کسانوں کے پاس 25 ایکڑ سے کم رقبہ ہے اور وہ زرعی اشیاء جیسا کہ بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات کا خرچہ بھی برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے ان سے اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے شمسی توانائی سے چلنے والے نلکے لگانے کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر کسانوں کو کچھ رعایت دے تو وہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ چھوٹے کسانوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگانے کے لیے آنے والے اخراجات پر پچاس فیصد کی رعایت دے کیونکہ زرعی شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت کو ضروراس کی مددکرنی چاہیے۔
جون 2012 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کسانوں کو شمسی توانائی کے پینلز پر رعایت دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ایفا نہ ہو سکا، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ زرعی شعبہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
پاکستان اکنامک سروے 14-2013 کے مطابق زرعی شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار میں پانچواں حصہ رکھتا ہے اور تقریباً ملک کی آدھی افرادی قوت اس سے روزگار کے لیے وابستہ ہے۔
گریس سولر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسرنعمان خان کا کہنا ہے کہ بڑے زمیندار اپنے کھیتوں پر شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا رہے ہیں لیکن چھوٹے کسان اس پر آنے والا تقریبا پندرہ لاکھ کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پرائیویٹ بینکوں کو شمسی توانائی پر چلنے والے نلکوں کے لیے اسی طرح قرضہ دینا چاہیے جیسا کہ وہ کسانوں کو بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات خریدنے کے لیے دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو گھروں اور ٹیوب ویلوں پر شمسی پینل لگا کر سال کے تین سو دن کی دھوپ سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔
تبصرے (1) بند ہیں