بلدیاتی انتخابات : کنٹونمنٹ بورڈز اور کے پی کا شیڈول منظور
اسلام آباد : سپریم کورٹ ن ےجمعرات کو کہا ہے کہ اسے حیرت ہے کہ آخر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) خود کو کابینہ ڈویژن کا ماتحت کیوں سمجھتا ہے تاہم عدالت نے 43 کنٹونمنٹ بورڈز اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نظرثانی شدہ شیڈول کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرلیا۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی جس کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا " ای سی پی خود کو کابینہ ڈویژن کا ماتحت تصور کرتا ہے"۔
تین رکنی بینچ نے راجا رب نواز کی جانب سے کنٹونمنٹ بورڈز میں 1998 سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں حکومتی ناکامی اور ای سی پی کو وارڈ کی حدبندی اور صوبوں میں انتخابات کرانے کے اختیار سے انیس مارچ 2014 کے فیصلے کے حوالے سے توہین عدالت کی دائر درخواست کی سماعت بھی کی۔
سپریم کورٹ اس مقدمے کی 26 فروری سے سماعت کررہی ہے یہاں تک کہ بدھ کو تو رات تک اس کی سماعت جاری رہی۔
عدالت نے کنٹونمنٹ بورڈز کے لیے الیکشن کمیشن کا نظرثانی شدہ شیڈول قبول کرلیا جس میں پچیس اپریل کو پولنگ کا دن قرار دیا گیا اس سے پہلے ای سی پی نے سولہ مئی کی تاریخ پیش کی تھی۔
عدالت نے ای سی پی کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر انتخابی رولز کے عمل کو شروع کرے اور تین سے پانچ لاکھ نئے ووٹرز کو تازہ فہرست میں شامل کرے۔
کے پی کے لیے کمیشن نے بلدیاتی انتخابات تیس موئی کو کرانے پر رضا مندی ظاہر کی جس کی پہلی تجویز کردہ تاریک سات جون تھی، اس شیڈول کو بھی عدالت نے بارہ لاکھ نئے ووٹوں کی شمولیت اور انتخابی رولز کے ساتھ قبول کرلیا۔
مگر عدالت نے پنجاب اور سندھ میں تین مراحل یعنی تیس ستمبر، چار نومبر اور نو دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے شیڈول کو مسترد کردیا ، کیونکہ پہلے کے شیڈول میں تین مراحل پر انتخابات کا ذکر نہیں تھا۔
کمیشن کی سیکرٹری کی جانب سے ای سی پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان کوثر عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ کمیشن پنجاب کے بارہ اضلاع اور سندھ کے دو ڈویژن میں تین مراحل میں انتخابات کرانا چاہتا ہے کیونکہ اس کے لیے چار سو ملین بیلٹ پیپرز پرنٹ کرانا ہوں گے جبکہ کمیشن پابند ہے کہ وہ تمام پیپرز پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان (پی سی پی) سے پرنٹ کروائے۔
عدالتی احکامات کے تحت کمیشن کی جانب سے شام کو ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا تھا کہ دونوں صوبوں میں انتخابات کے لیے اسے کتنا وقت درکار ہے۔
سپریم کورٹ کا بینچ جمعے کو کمیشن کی رپورٹ پر غور کرے گا۔
سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر آئین کے آرٹیکل 220 کا حوالہ دیا جو ای سی پی کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اختیار دیتا ہے اور ریمارکس دیئے کہ کمیشن خلاف ضابطہ دور دراز کی تاریخیں تجویز کی ہیں۔
تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی جواز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے اگر اسے نظرثانی شدہ شیڈول کی تاریخوں کے ساتھ پیش کیا جائے۔
عرفان کوثر نے تسلیم کیا کہ مختصر وقت میں اتنے زیادہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ پی سی پی کی صلاحیت سے زیادہ ہے کیونکہ اس کے پاس ایڈوانس اور موثر پرنٹنگ مشینیں موجود نہیں۔
اس وقت پی سی پی 1951 کی پرنٹنگ مشینیں استعمال کررہا ہے۔
جب عدالت نے عرفان کوثر سے پوچھا کہ وہ کوئی قانون، ضابطہ یا ریگولیشن بتائے جو ای سی پی کے لیے بیلٹ پیپرز پی سی بی سے پرنٹ کرانا لازمی بناتا ہے تو عہدیدار کچھ بتانے سے قاصر رہے۔
جب کمیشن کے عہدیدار سے پوچھا گیا کہ ای سی پی کو کب پی سی پی کی کم صلاحیت کا پتا چلا تو عرفان کوثر کا کہنا تھا کہ کمیشن کو اس کی آگاہی مئی 2013 کے عام انتخابات کے لیے بیلٹس پرنٹ کراتے ہوئے ہوئی۔
عدالت نے کہا کہ وہ عرفان کوثر کے اعتراف سے حیران ہے کہ پی سی پی کی کم صلاحیت سے آگاہ ہونے کے باوجود کمیشن نے صرف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط ارسال کرکے پی سی پی کی صلاحیت میں کمی کا بتایا اور جدید پرنٹنگ مشینیں خریدنے کی درخواست کی۔
عدالت نے ہلکے پھلکے انداز میں تجویز دی کہ پی سی پی کی مشینوں کو جرمنی بھیج دیا جائے جو کہ پرنٹنگ میشینوں کی سرزمین ہے، جہاں اسے نئی مشینوں سے تبدیل کردیا جائے اور پرانی مشینوں کو میوزیم میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے ریسرچ عملے نے عدالت کو تیز مشینوں کی فہرست پیش کی جو کہ ایک گھنٹے میں ایک لاکھ کاپیاں پرنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔