لڑکے کی داڑھی ہو تو اچھا ہے، بینگلورو کی لڑکی کی شادی کا اشتہار
جب بنگلورو کی اندھوجا پلائی کے والدین نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے ایک ویب سائٹ پر اشتہار دیا تھا، تو انہوں نے یہی خیال کیا ہوگا کہ اس طرح انہیں اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے ایک اچھا شوہر مل جائے گا۔
لیکن اس کے بجائےان کی بیٹی کی شادی کا یہ اشتہار ہندوستان بھر کی ان لاکھوں نوجوان لڑکیوں میں بے انتہا مقبول ہوگیا، جو والدین یا خاندان کی مرضی سے شادی کی روایت کے خلاف بغاوت کا ارادہ رکھتی ہیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہیں۔
ہوا یہ کہ اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں روایت کے برعکس انداز سے سوچنے والی اندھوجا کو اپنے والدین کا تیار کردہ اشتہار پسند نہیں آیا۔ اور انہوں نے اپنی شادی کے لیے دوسرا دوسرا اشتہار خود تیار کیا۔
اندھوجا کہتی ہیں کہ ’’ایک دن ماں اور پاپا نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میری پروفائل کو ایک میٹری مونیل ویب سائٹ پر پوسٹ کیا ہے۔ پاپا نے مجھے اس کا لنک بھی بھیجا۔ اس اشتہار میں لکھا تھا، ہمیں اپنی سافٹ ویئر انجنیئر بیٹی کے لیے ایک لڑکے کا رشتہ چاہیے۔‘‘
انہوں نے بتایا ’’میرے والدین میرے لیے دولہا تلاش کریں، اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ ہندوستان میں عام طور پر بیٹیوں کی شادی کے لیے ان کے والدین ہی مناسب بر کی تلاش کرتے ہیں۔ البتہ اس اشتہار میں میرے بارے میں دی گئی ابتدائی معلومات پر مجھے اعتراض تھا۔ اس لیے کہ میں کوئی سافٹ ویئر انجنیئر نہیں ہوں۔ میں تو چھوٹی موٹی کمپنیوں کے لیے کام کرتی ہوں۔‘‘
اس کے بعد اندھوجا نے طے کیا کہ وہ شادی کے لیے اپنا اشتہار خود تیار کریں گی اور یوں انہوں نے اپنی ایک پروفائل تیار کی۔
یہ پروفائل دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس میں انہوں نے اپنا تعارف ایک عینک لگانے والی اور دھماچوکڑی مچانے والی لڑکی کے طور پر کرایا تھا، جو ایک داڑھی والے مرد کی تلاش میں ہے، جسے بچے پسند نہ ہوں اور وہ اس کے خاندان سے قریب نہ ہو۔
اندھوجا کے اشتہار کو ہندوستان کی نوجوان خواتین کی جانب سے ایک اعلانِ جنگ کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جن میں سے زیادہ تر سے اب بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے منتخب کردہ شخص سے شادی کریں گی، اور اپنی تمام خواہشات کو ختم کرکے ایک گھریلو خاتون کے طور پر زندگی گزاریں گی۔
ہندوستانی خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے خاندان کے ساتھ رہیں گی، اس کی والدہ کی خدمت کریں گی اور اس کے لیے بیٹے پیدا کریں گی۔
اندھوجا کے اشتہار کو شہرت اس احتجاج کے پس منظر میں حاصل ہوئی ہے، جودہلی کی طالبہ کے گینگ ریپ اور قتل پر 2013ء میں موت کی سزا پانے والے مجرمین میں سے ایک کے بیان پر کیا جارہا تھا۔ اس مجرم نے کہا تھا کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی مقتول طالبہ اپنی موت کی خود ذمہ دار تھی۔
تفصیلات کے مطابق دہلی گینگ ریپ کے ایک مجرم مکیش سنگھ کا کہنا تھا کہ اگر جنسی زیادتی کے دوران ’’اس لڑکی نے پوری قوت سے اس کی مزاحمت نہ کی ہوتی اور چپ چاپ رہتی تو اس کے ساتھ تشدد نہیں کیا جاتا۔‘‘
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2012 کو دہلی میں ایک چلتی بس میں 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ کی گئی اجتماعی جنسی زیادتی کے کیس میں بس ڈرائیور مکیش سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔
مکیش سنگھ نے حال ہی میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ جنسی زیادتی کے کیسز میں مردوں سے زیادہ خواتین ذمہ دار ہیں۔
مکیش سے ہونے والی ایک بات چیت اور اس کے وکلاء کی رائے بی بی سی 4 کی ایک دستاویزی فلم ’ہندوستان کی بیٹی‘ کا حصہ ہے، جسے برطانوی فلمساز لیزلی اڈون نے تیار کیا ہے۔ یہ دستاویزی فلم آٹھ مارچ کو نشر کی جائے گی۔
اس کا کہنا تھا کہ ’’مہذب خواتین رات میں نو بجے گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔ جنسی زیادتی کے لیے لڑکے سے زیادہ لڑکی ذمہ دار ہوتی ہے۔ لڑکا اور لڑکی برابر نہیں ہیں۔ لڑکی کو گھر کا کام کرنا چاہیے۔‘‘
دہلی کی طالبہ پر تشدد کے حوالے سے مکیش نے کہا’’ریپ کے دوران اسے مزاحمت نہیں کرنی چاہیے تھی، اور اسے چپ چاپ ریپ ہونے دینا چاہیے تھا، اگر ایسا ہوتا تو ہم مارپیٹ کے بغیراسے چھوڑ دیتے، اور صرف اس کے دوست کی پٹائی کی جاتی۔‘‘
پھانسی کی سزا پر مکیش کا کہنا تھا، ’’موت کی سزا سے لڑکیوں کے لیے خطرہ بڑھ جائے گا۔ اب اگر کوئی ریپ کرے گا تو وہ لڑکی کو زندہ نہیں چھوڑے گا، جیسا ہم نے کیا۔ وہ بھی اسے جان سے مار دے گا۔‘‘
اس دستاویزی فلم کے لیے ریپ کے مجرمان کے وکلاء کا بھی انٹرویو کیا گیا ہے۔ ایک وکیل اے پی سنگھ نے کہا’’اگر میری بیٹی یا بہن کی شادی سے پہلے کسی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یا ایسا کوئی کام کرتی ہے جس سے اس کے کردار پر آنچ آتی ہے تو میں اسے اپنے فارم ہاؤس لے جا کر پٹرول چھڑک کر پورے خاندان کے سامنے زندہ جلا دوں گا۔‘‘ وکیل اے پی سنگھ نے بار بار کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں.
دوسرے وکیل ایم ایل شرما نے کہا ’’ہمارے معاشرے میں لڑکیاں کسی انجان شخص کے ساتھ شام کو ساڑھے سات یا آٹھ بجے کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتی ہیں، اور آپ لڑکے اور لڑکی کی دوستی کی بات کرتی ہیں؟ معاف کیجیے گاہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ہمارا کلچر بہترین ہے۔ ہمارے کلچر میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
دہلی ریپ کیس کی مقتولہ طالبہ کی والدہ کہتی ہیں، ’’جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو اس کے لیے لڑکی کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ اسے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہیے تھے۔ لڑکوں سے بھی تو پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
آکسفورڈ یونیورسٹی کی مصنفہ اور مؤرخ ڈاکٹر ماریا مشرا کہتی ہیں’’دہلی کی اس طالبہ کی موت کے بعد معاشرے میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ اس واقعہ سے ایسے مسائل پر آواز اُٹھائی جارہی ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں ایک جوان اور خود مختار لڑکی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اس واقعہ کے بعد سے ہندوستان میں ایک بحث چھڑ گئی ہے۔‘‘
مکیش سنگھ اور ریپ کے مجرمین کے وکلاء کے تبصرے مایوس کن ہیں، لیکن ہندوستان میں حیران کن نہیں، جہاں جیوتی سنگھ کے قتل کے بعد قومی روح کی تلاش جاری ہے، اس کے باوجود اب بھی خواتین کو جنسی تشدد اور خطرات کا سامنا کررہی ہیں۔
بینگلورو میں قائم ایک این جی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ کالج کے اسٹوڈنٹس کی 87 فیصد تعداد تسلیم کرتی ہے کہ خواتین کو تشدد کی ایک خاص حد کو برداشت کرنا چاہیے اور 51 فیصد یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے گھریلو کام کاج اور بچے پیدا کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
چوبیس سالہ اندھوجا پلائی نے خود کو ایک محرک ثابت کیا ہے، اور وہ شادی کے لیے دقیانوسی اشتہار کو مسترد کرنے اور اپنی شرائط پر جرأت مندانہ زندگی گزارنے کے دعوے کے بعد امید کی ایک علامت کے طور پر اُبھری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ والدین کی جانب سے دیے گئے شادی کے اشتہار میں میرے مذہبی رجحانات، شوق یا دلچسپیوں کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں، ’’میں نے لکھا، میں شراب نہیں پیتی، مجھے سگریٹ سے نفرت ہے، میں انڈا اور سبزی کھالیتی ہوں، لیکن کھانے پینے کا کچھ زیادہ شوق نہیں، بیڈمنٹن کھیلتی ہوں اور خوب ناچتی ہوں۔ عینک پہنتی ہوں لیکن عینک پہن کر بدّھو نظر آتی ہوں۔ میں فضول خرچ نہیں اور نہ ہی شاپنگ کی دیوانی ہوں۔ مسالا اور ڈرامہ نہیں چاہیے مجھے، ٹی وی کے پیچھے پاگل نہیں ہوں۔ پڑھنے کا تو قطعی شوق نہیں، دوستانہ رویہ ہے، لیکن دوستی پسند نہیں۔ لڑکی ہوں لیکن زنانہ سمجھی جانے والی کوئی خصوصیت نہیں ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شادی کے لیے لازمی اور مثالی خصوصیات نہیں۔ میں کبھی بال نہیں بڑھاؤں گی۔ ہاں، عمر بھر کے لیے اس بات کی ضمانت ضرور دے سکتی ہوں کہ زندگی کے حوالے سے سچی اور سرشار ہوں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اب سوال یہ ہے کہ مجھے کیسا لڑکا چاہئے۔ تو لڑکا ایسا ہونا چاہیے جس میں یہ خاص باتیں موجود ہوں، ’’ایک انسان ہو، اگر داڑھی والا ہو تو زیادہ اچھا ہے، دنیا کو دیکھنے کا جوش ہو۔ خاندان والوں کے ساتھ مل کر چلتا ہو۔ خاندانی شخص نہ ہو تو بہتر ہے، ایک اور بہت ضروری بات کہ اسے بچے پسند نہ ہوں۔ شخصیت پُرکشش ہو۔‘‘
اندھوجا نے لکھا کہ میں خود کو ایک انسان کے طور پر دیکھتی ہوں۔ جانتی ہوں کہ میں کون ہوں، میں ایک خانہ بدوش ہوں جسے گھومنا پھرنا پسند ہے۔ میں سب سے الگ ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ شادی کے لیے دیے گئے میرے اس اشتہار کے اتنے جواب آئے، جس کا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔ مجھ سے شادی کے خواہشمندوں میں کچھ انتہائی دلچسپ لوگ بھی ملے۔
مجھے سب سے زیادہ خواتین نے متاثر کیا، جنہیں میری خاص سوچ اور تصورات انتہائی بولڈ محسوس ہوئے۔ اور کسی خاتون کا یہ رخ ہندوستان میں بذاتِ خود نہایت منفرد ہے۔
حقوق نسواں کے لیے سرگرم مہم جو خاتون اور مصنفہ نلنجانہ رائے کہتی ہیں کہ اندھوجا پلائی کی اس بغاوت کا خاموش اثر ہوا ہے، لیکن نوجوان خواتین کے درمیان یہ بغاوت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران خواتین کی شخصی آزادی کو روکنے کے لیے ان کے خلاف بہت سے حملے رپورٹ کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا ’’خواتین میں اقتصادی اور پیشہ ورانہ آزادی بڑھ رہی ہے، لہٰذا اس موقع پر وہ شخصی آزادی اور انتخاب کا حق بھی چاہتی ہیں۔‘‘
نلنجانہ رائے کہتی ہیں ’’موجودہ نسل اب کھڑی ہورہی ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شادی ہمارے لیے نہ ہو، تاہم عوام کی اکثریت اب بھی اس قدیم روایت کے ساتھ ہے کہ شادی ان کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔ مجھے یہ خاتون پسند ہے۔‘‘