ایک دن ہمارے نام بھی
اس نے آتے ہی اپنا ہینڈ بیگ کھولا اور اس میں سے سستا سا سگریٹ نکال کر سلگایا اور اس کا کچھ دھواں ہوا میں دھکیلتے ہوئے اور کچھ میری طرف پھینکتے ہوئے اندازِ دلبرائی سے گفتگو کا آغاز کیا:
'صنفی تشدد کے خلاف احتجاج کا دن بھی منایا جاتا ہے، بچوں کا عالمی دن، خواتین کا عالمی دن، پانی کا عالمی دن اور بھی بہت سے دن ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے منائے جاتے ہیں، بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، تقریریں کی جاتی ہیں، طرح طرح کے راگ الاپے جاتے ہیں، ہم خواجہ سراؤں کو تھوڑی دیر کے لیے مرد اور عورت کی درجہ بندی سے نکال کر ایک زندہ انسان فرض کر لیں تو کیا پورے سال میں ایک دن آپ ہمارے نام نہیں کر سکتے؟
پڑھیے: 'پارلیمنٹ میں خواجہ سراؤں کی نمائندگی ضروری'
'عورتوں پر یہ ظلم ہو رہا ہے ان کے حقوق مارے جا رہے ہیں طرح طرح کے قصے کہانیاں بنا کر لمبی لمبی تقاریر کی جاتی ہیں، پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں، ہر چینل پر مظلوم خواتین کو لا کر بٹھا دیا جاتا ہے اور ریٹنگ کو بڑھانے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں، مگر کسی نے ہمارے بارے میں بھی سوچا ہے کہ آدھی عورت کا وجود تو ہمارے اندر بھی پوشیدہ ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ عورت پر ظلم اگر ہوتا بھی ہے تو اس میں زیادہ ہاتھ خود کسی نہ کسی عورت کا ہی ہوتا ہے، اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو بھی جائے، تو باپ کا تو جو حال ہوتا ہے، ماں بھی پیچھے نہیں رہتی۔ وہ ایک عورت ہو کر ایک عورت کا وجود اس دنیا کو دیتے ہوئے شرم کیوں محسوس کرتی ہے؟'
اتنا کہنے کے بعد وہ رک کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ تو اب مجھے بھی کہنا چاہیے تاکہ اسے احساس ہو کہ میں نے اسے اہمیت دی ہے۔ میں نے سب سے پہلے تو حقوق نسواں کے حوالے سے اس کی معلومات کی داد دی کہ اس کی قابلیت کا قائل ہوگیا ہوں مگر۔۔۔۔ اس نے میری بات کو کاٹتے ہوئے پھر سے اپنی گفتگو کے اسی سرے کو پکڑ لیا جہاں سے چھوڑا تھا۔ جذبات کی شدت سے اس کا میک اپ زدہ چہرہ اور بھی زیادہ دمک رہا تھا۔ کہنے لگی 'ہاں اب یہ نہ کہنا کہ اس وقت پورا ملک ہی بحرانوں کا شکار ہے اور میں ایک اور مسئلہ اٹھا کر آگئی ہوں۔
تصاویر: بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کا پہلا دن
'بھائی جی حالات پوری دنیا میں ایک سے نہیں رہے ہیں، مگر ہمارا حال تو ہر طرح سے بدتر سے بدتر ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے پاس تو روزگار کی بھی ایک ہی صورت ہے کہ ناچ گانا اور دل لبھانا۔ ہم ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے ہمیں شناختی کارڈ بنوا کر دے دیے مگر اس سے آگے بھی تو کام بڑھنا چاہیے ناں۔ نہ ہمارے لیے دینی تعلیم اور نہ دنیاوی تعلیم، بس تفریح سے آگے ہماری کوئی شناخت ہی نہیں ہے اور تفریح بھی تیسرے درجے کی۔
'اب تو زمانہ بدل گیا ہے۔ پہلے جب ہمیں پتا چلتا کہ کسی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے تو ہم ناچتے گاتے ہوئے جاتے اور بیٹے کی صورت میں اگر دو سو روپے ملتے تھے تو بیٹی کی صورت میں پچاس بھی مل جاتے تھے۔ اب تو خوشی میں ناچنے گانے کا کام گھر والوں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے، ہمیں باہر سے ہی بھگا دیا جاتا ہے۔ ہائے مجھے تو آج بھی گرو جی کی باتیں یاد آ رہی ہیں جب نیا نیا سی ڈی کا دور آیا تو اس نے کہا کہ بچیوں اب کیسٹوں کو آگ لگا دو اور اپنے اپنے مستقبل کی فکر کرو، ایک دن آئے گا جب کوئی تمہیں نہیں پوچھے گا، تم لوگ گم ہو کر رہ جاؤ گے۔ وہی ہوا آج میموری کارڈ اور یو۔ایس۔بی میں ہزاروں گانے آ جاتے ہیں اور ڈی جے نے نہ صرف بینڈ باجے والوں کے روزگار کو تالے لگا دیے ہیں بلکہ ہمارا بھی بوریا بسترا گول کر دیا ہے ورنہ وہ بھی کیا زمانہ تھا لوگ فنکشنز میں ہماری مخصوص آوازوں میں گانوں کی فرمائشیں کرتے تھے۔
مزید پڑھیے: انڈین خواجہ سراؤں کے لیے تیسری جنس کا درجہ
'خیر میں اصل دکھ کی طرف پھر سے آتی ہوں میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ کسی طرح میرا یہ پیغام دنیا بھر میں پھیلا دیں کہ سال کے 365 دنوں میں ایک دن ہمارے لیے بھی مختص کر دیا جائے جس میں عام لوگوں تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ہمارا شمار بھی انسانوں میں کیا جائے۔ ہمیں صرف جسمانی تفریح کا ذریعہ نہ سمجھا جائے۔ کوئی ادارہ ہمارے لیے بھی بنایا جائے جہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کا انتظام بھی ہو جس سے ہم با عزت طریقے سے روزگار کا سلسلہ چلا سکیں۔
'ہماری شناخت ادھوری ہے مگر زندگی تو ہم بھی مکمل رکھتے ہیں۔ کوئی سستا رہائشی منصوبہ ہمارے نام بھی کر دیا جائے جہاں ہم سکون سے تحفظ کا احساس لیے جی مر سکیں۔ میں نے تو خان صاحب سے بھی گزارش کی تھی کہ اس نئے پاکستان میں ہمارے لیے بھی کوئی جگہ نکالیں ورنہ اسی پاکستان میں ہمیں کسی سرحدی گاؤں ہی میں کچے پکے مکان بنانے دیں، ہم سرحدوں کی حفاظت بھی کر لیں گے۔ ہم نے ایک وزیر کے گھر فنکشن کیا اور ایمانداری کی بات ہے کہ مقررہ وقت سے زائد ہی ناچے پھر پیسے بھی آدھے لیے کہ وہ بڑے میاں صاحب یا چھوٹے میاں صاحب سے ہمارے حقوق کی بات کریں مگر اس مسکین نے تو بیچارگی سے کہا کہ وہ ہماری نہیں سنتے تو تمہاری کیا سنیں گے۔'
اس کا سگریٹ ختم ہو چکا تھا اور شاید اتنا کچھ کہہ کر دل کا بوجھ بھی کافی کم ہو چکا تھا، وہ جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے آفس سے باہر چلی گئی مگر وہ اپنا بوجھ اور بہت سے سوالات مجھے دے گئی تھی۔
تبصرے (7) بند ہیں