غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اہم بل کی منظوری
اسلام آباد : سینیٹ نے متفقہ طور پر پیر کو چار اہم بلوں کی منظوری دے دی ہے جس میں غیرت کے نام قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کا بل بھی شامل ہے۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے دوران حراست تشدد اور موت کے ذمہ دار عناصر کو سزائیں دینے کے حوالے سے بھی بل کی منظوری دی ہے جبکہ ایک اور بل جنسی زیادتی کے متاثرین کو تیز ترین بنیادوں پر انصاف کی فراہمی پر مبنی ہے۔
سینیٹ نے پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈنینس میں ترامیم کا بل بھی منظور کیا ہے تاکہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ تمام بل حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے پیش کیے گئے تھے جن میں تین صغریٰ امام نے پیش کیے جو گیارہ مارچ کو ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹرز میں سے ایک ہیں۔
یہ بل بغیر کسی بحث کے منظور کرلیے گئے کیونکہ حکومت کی جانب ان کی مخالفت نہیں کی گئی تاہم ان پر متعلقہ قائمہ کمیٹیوں پر کافی بحث ہوچکی تھی جبکہ حکومت کی تجویز کردہ کچھ ترمیمی تجاویز کو بھی ان میں شامل کیا گیا۔
ان بلوں کو قانون کی شکل بننے کے لیے قومی اسمبلی اور صدارتی منظوری درکار ہوگی۔
غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کے لیے بل میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) 1898 میں ترامیم کی گئی ہیں۔
بل کی منظوری کے بعد رابطہ کرنے پر صغریٰ امام نے بتایا کہ غیرت کے نام قتل کے مقدمات میں خاندان کے اراکین ہی ملوث پائے جاتے ہیں اور ان میں سزاﺅں کی شرح لگ بھگ صفر کے قریب ہے کیونکہ بیشتر مقدمات میں ملزمان اسی خاندان کاے رکن ہوتے ہیں جنھیں مقتول کے ورثاءمعاف کردیتے ہیں۔
بل کے مطابق " غیرت کے نام پر قتل پاکستان بھر میں عام ہیں اور ہر سال اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے جاتے ہیں"۔
بل میں کہا گیا ہے کہ حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والے ادارے عورت فاﺅنڈیشن سے حاصل کردہ اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2012 میں غیرت کے نام پر 432 خواتین قتل ہوئیں، 2011 میں 705 ، 2010 میں 557، 2009 میں 604 اور 2008 میں 475 قتل ہوئے۔
بل میں کہا گیا ہے " ان اعدادوشمار میں وہ واقعات شامل نہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے یا وہ مرد جو خواتین کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل ہوئے، موجودہ قوانین میں موجود جھول اور رخنوں کی روک تھام اس طرح کے جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے"۔
انسداد تشدد بل : تشدد، حراست میں ہلاک اور زیرحراست زیادتی بل 2014 میں حراست میں تشدد اور زیادتی و ہلاکتوں کے ذمہ داران کو قید اور جرمانے کی سزاﺅں کی تجویز دی گئی ہے اور اس بل کو پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے ایوان میں پیش کیا۔
اس بل میں تشدد کے ذریعے لیے گئے بیانات کو ناقابل قبول جبکہ زیرحراست موت یا زیادتی کے ملزمان کو عمر قید اور تیس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اسی طرح تشدد پر کم از کم پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزاﺅں کی تجویز دی گئی ہے۔
بل کے مطابق " حالت جنگ، ایمرجنسی، سیاسی عدم استحکام یا اعلیٰ انتظامیہ کے آرڈر سمیت کوئی بھی وجہ تشدد کے خلاف دفاع نہیں سمجھی جاسکتی"۔
اس میں تشدد" کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے"دوران حراست کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی تکلیف پہنچانا ہے تاکہ کوئی معلومات یا اعتراف حاصل کیا جاسکے یا ایک خاتون کو اس مقصد کے لیے ہراساں اور زیادتی کا ہدف بنایا جائے"۔
بل مں مزید کہا گیا ہے " مزید براں کوئی سرکاری ملازم یا کوئی اور شخص دانستہ یا غیردانستہ طور پر زیرحراست موت یا زیرحراست زیادتی کے جرم کی روک تھام میں ناکام ہو اسے بھی کم از کم سات سال قید جسے دس سال تک بڑھایا جاسکتا ہو اور جرمانے جو دس لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے، کی سزائیں دی جائیں"۔
بل کے مطابق " کوئی بھی خاتون کو کسی جرم کے ملزم کے جائے وقوع کی معلومات کے حصول یا اس خاتون سے کسی شواہد کے حصول کے لیے حراست میں نہیں رکھا جاسکتا"۔
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی خاتون/لڑکی کو کوئی مرد حراست میں نہیں لے سکتا یا رکھ سکتا اور صرف خواتین سرکاری ملازمین ہی ملزمہ خاتون کو حراست میں لے سکتی ہیں۔
بل کے تحت تشدد کے خلاف شکایات وفاقی تحقیقاتی ادارے یا سیشن جج کے روبرو سرکاری ملازمین سمیت کسی بھی فرد کے خلاف دائر کی جاسکتی ہیں۔
اس بل میں تشدد کی شکایات پر تحقیقات کو چودہ روز میں جبکہ ٹرائل تین ہفتے میں مکمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس بل میں کسی سزا کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں دس روز کے اندر اپیل کا حق دیا گیا ہے ، اور عدالتیں ان اپیلوں کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کی پابند ہوں گی۔
بل میں تجویز دی گئی ہے کہ کسی خراب مقصد سے دائر کی گئی شکایات قابل سزا ہوں گی اور اس کے مرتکب افراد کو ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔
انسداد زیادتی قوانین : اس بل میں پاکستان پینل کوڈ ، قانون شہادت آرڈر اور سی آر پی سی کی متعدد دفعات میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ جنسی زیادتی کے مقدمات کے ملزمان کے تیر تر ٹرائل کو یقینی بنایا جاسکے جبکہ تجویز دی گئی ہے کہ زیادتی کے متاثرین کی شناخت کو صغیہ راز میں رکھا جائے۔
بل میں عدالتی کارروائی کی اشاعت پر" متعلقہ عدالت کی منظوری کے بغیر " پابندی لگائی گئی ہے اور اس شق کی خلاف ورزی پر دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
بل نے ایسے پولیس اہلکاروں یا دیگر سرکاری ملازمین کے خلاف سزائے موت کی تجویز دی گئی ہے جو دوران حراست خواتین سے زیادتی میں ملوث پائے جائیں۔
بل میں مزید تجویز دی گئی ہے کہ " مناسب طریقے سے تحقیقات کرنے یا کسی عدالت میں مقدمے کی درست طریقے سے پیروی اور اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین کو تین سال قید کی سزا سنائی جائے۔