کیا بیٹنگ صرف مصباح کی ذمہ داری؟
اتوار کے دن جب سخت مقابلے کے بعد پاکستانی ٹیم نے زمبابوے کو شکست دی، تو یہ پاکستانی قوم کے لیے خوشی اور حیرت کا ملا جلا احساس تھا کیونکہ پاکستانی ٹیم کی حالیہ بیٹنگ پرفارمنس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا رہی تھیں۔
در حقیقت ورلڈ کپ میں زمبابوے کے زبردست اسکورز 277، 286، اور 289 کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جیت اپ سیٹ تھی۔
انڈیا اور ویسٹ انڈیز سے ہارنے کے بعد کپتان مصباح الحق نے اپنی ٹیم پر زور دیا کہ وہ 1992 میں عمران خان کی زبردست کاوشوں سے کچھ سبق سیکھیں۔ بدقسمتی سے مصباح کے کھلاڑیوں نے ان کے الفاظ کا سطحی مطلب لیا، اور 1992 والی ہی پرفارمنس دکھائی جب 50 اوورز میں 225 سے اوپر کا اسکور فیصلہ کن سمجھا جاتا تھا۔
پاکستان 23 سال قبل کھیلے گئے ورلڈ کپ فائنل کی تاریخ دہرانے کے لیے اتنا بے چین رہا کہ اس نے دونوں ہی اوپنر بہت کم اسکور پر گنوا دیے۔
پڑھیے: دو متضاد کپتان
فل ٹاس گیندوں کو واپس باؤلروں کی جانب پلٹا گیا، جبکہ بلا گھمانے کی کوششیں کم ہی کی گئیں۔ 15 اوورز کے اختتام پر پاکستان نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 33 رنز بنائے تھے، جو کہ ورلڈ کپ میں 15 اوورز کا کم ترین اسکور ہے، انڈیا کے خلاف عرب امارات کے 41 رنز سے بھی خراب تر۔
پھر آخرکار بہتری کے آثار نظر آنے شروع ہوئے، اور 24 ویں اوور کے اختتام پر رن ریٹ 3 رنز فی اوور سے کچھ اوپر بڑھا۔ اور پھر اسٹیڈیم ڈی جے نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً ہی پاکستانی پاپ ملی نغمے چلانے شروع کر دیے تاکہ ایشیائی شائقین کا مورال بلند کیا جا سکے۔
کھیل میں واپس آنے کی پاکستانی حکمتِ عملی اتنی قدیم تھی کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے مصباح الحق اور حارث سہیل ابھی بھی غلام اسحاق خان اور مائیکل جیکسن کے دور میں جی رہے ہیں۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہی حارث سہیل اسکواڈ میں فواد عالم کی جگہ لے چکے تھے کیونکہ فواد عالم کو بہت ہی سست بیٹسمین ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔
اور اتوار کے روز اس بیٹسمین اور باؤلر نے زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف 61.36 کے دھواں دھار اسٹرائیک ریٹ پر 27 رنز بنا کر دکھا دیا کہ وہ فواد عالم سے کتنا تیز کھیل سکتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو فواد عالم کی کمی بہت محسوس ہوئی، ایسا کھلاڑی جس نے 35 میچوں میں 45 رنز کی بیٹنگ اوسط برقرار رکھی۔ فواد عالم کے خلاف جو دلائل پیش کیے گئے وہ زیادہ وزن نہیں رکھتے کیونکہ ان کی جگہ جن کھلاڑیوں یونس خان اور حارث سہیل کو لایا گیا ہے، وہ بھی کچھ خاص اسکور نہیں بنا پا رہے۔ دیکھا جائے تو ان تینوں کا ون ڈے اسٹرائیک ریٹ 75 کے آس پاس ہی تو ہے۔
کم از کم اتنا تو ہے کہ فواد سنگل اور ڈبل کے ذریعے اسکور کرنا جاری رکھتے ہیں۔ شاید وہ زمبابوے کے خلاف 50، یا 100 بھی بنا لیتے۔ فواد پرفیکٹ نہیں ہیں، لیکن انہوں نے بیٹنگ میں پاکستان کے موجودہ ٹاپ آرڈر سے زیادہ مہارت کا مظاہرہ ضرور کیا ہے۔
اس سب کے دوران مصباح مارچ 1992 کی تاریخ دہرانے کی کوشش کرتے ہرہے، اور تین باؤنڈریز کی مدد سے 121 گیندوں پر 73 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ شعیب اختر کی سخت تنقید کو مدِنظر رکھتے ہوئے کپتان نے عمران خان کی نقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
لیکن مصباح کے 121 گیندوں پر 73 رنز انگلینڈ کے خلاف عمران خان کے 110 گیندوں پر 72 رنز سے آہستہ ہی تھے۔ 1992 میں بھی عمران خان پر ٹونی گریگ جیسے کمنٹیٹرز نے تنقید کی تھی کہ وہ اننگز کو پیدل چلنے والوں کی رفتار سے کھیلتے ہیں۔
مصباح کے حامی انہیں ہیرو قرار دے رہے ہیں لیکن اگر پاکستان اس اسکور کا دفاع کرنے میں ناکام ہوجاتا، تو اس کہانی کے ولن وہ ہی کہلاتے۔
مزید پڑھیے: ہو جائے ایک پوسٹ مارٹم؟
میں مصباح کا زبردست فین ہوں، لیکن ان کی یہ اننگز بدترین کارکردگیوں میں سے تھی۔ وہ دو وکٹوں کے نقصان پر کریز پر آئے، اور ایسے دفاعی انداز میں کھیلے جیسے کہ چھ وکٹیں گر چکی ہوں۔ ہاف سنچری بنانے کے بعد جس طرح ان کا سانس پھولا ہوا تھا، اور بعد میں وہ کس طرح باؤنڈری کرنے میں ناکام رہے، اس کو دیکھ کر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سنچری بنانے میں ان کی ناکامی میں بڑا ہاتھ جسمانی فٹنس کا بھی ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ مصباح 50 رنز بنا کر تھک ہار گئے ہوں۔ بنگلا دیش میں ہونے والے ایشیا کپ میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی جب وہ اپنے کھیل کی رفتار بڑھانے میں ناکام رہے تھے۔
ایک تازہ دم مصباح زمبابوے کے پرخچے اڑا سکتے تھے، لیکن ایک تھکے ہارے مصباح باؤنڈری بھی نہ کر سکے۔
ٹیسٹ میچوں میں مصباح الحق 100 آرام سے بنا لیتے ہیں لیکن ون ڈے کہیں زیادہ سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف جب انہوں نے تیز ترین ٹیسٹ سنچری بنائی تو یہ صرف 74 منٹ میں 56 گیندوں پر تھی، جس میں درمیان کا ایک وقفہ بھی شامل ہے۔ لیکن طویل ٹیسٹ میچ اننگز میں مصباح زیادہ تر دفعہ دفاعی حکمتِ عملی اپناتے ہیں تاکہ اپنی طاقت بحال کرسکیں۔
دوسری جانب اتوار کی سخت مشقت سے بھرپور اننگز 191 منٹ کی تھی اور اس میں کوئی بریک نہیں تھا۔
لیکن اس کے باوجود مصباح کی اننگز اہمیت کی حامل ہیں، کیونکہ یہ خالی ٹیبل پر روٹی کے ایک ٹکڑے جیسی ہی تھی۔ یہ اننگز پرفیکٹ سے تو بہت دور تھی، لیکن پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر پاکستانی کرکٹ شائقین نے مصباح کی عمر، حالات کا پریشر، اور پاکستانی کی کمزور بیٹنگ لائن کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مصباح کے سست رفتار لیکن انمول اسکور پر ان کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس کے بجائے یہ فین اسی بات پر شور مچاتے رہے کہ شاہد آفریدی کو کپتان ہونا چاہیے تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ شاہد آفریدی، جو کبھی بھی ورلڈ کپ میں 50 سے زائد نہیں بنا پائے، 23.59 کی بیٹنگ اوسط رکھتے ہیں، 34.21 کی اوسط سے باؤلنگ کرواتے ہیں، اور ٹیسٹ کھیلنے والے کسی بھی ملک کی ون ڈے ٹیم میں انہیں جگہ نہ ملے، مصباح الحق سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: محمد یوسف! آپ غلط کہتے ہیں
پاکستان کے پریشان کن حد تک کم اسکور کا زبردست فاسٹ باؤلنگ نے آسانی سے دفاع کیا۔ محمد عرفان، وہاب ریاض، اور راحت علی جیسے باؤلرز نے وسیم اکرم کی طرح ذہانت سے بھرپور باؤلنگ کروائی۔ ایک بار پھر کریڈٹ مصباح الحق کو جانا چاہیے جنہوں نے اپنے کھلاڑیوں کو بار بار عمران خان کے حوالے دے کر زبردست ہمت اور توانائی دلائی۔
پاکستان اگر عرب امارات کو شکست دینا چاہتا ہے، تو اسے ایسی ہی تابڑ توڑ باؤلنگ جاری رکھنا ہوگی، کیونکہ پاکستان کی بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے عرب امارات بھی ایک مشکل حریف معلوم ہوتا ہے۔
لیکن اتوار کے کھیل کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل لگتا ہے کہ ہمارے یہ ایشیائی کھلاڑی ساؤتھ افریقا جیسی مضبوط ٹیم کے لیے کوئی خطرہ ثابت ہوں گے۔ اس طرح کے حریف کو ہرانے کے لیے نہ صرف اچھی باؤلنگ کی ضرورت ہے، بلکہ بیٹنگ بھی سدھارنی ہوگی کیونکہ زیادہ تر ٹیموں کا اس ٹورنامنٹ میں اسکور پاکستان سے کہیں زیادہ رہا ہے۔
شکر ہے کہ پاکستانی ٹیم نے راحت علی کو اوپنر یونس خان کی جگہ کھلانے کے بجائے پانچویں باؤلر کے طور پر کھلایا۔
آئندہ میچوں کے لیے نوٹس
آئندہ میچوں میں کئی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔
ناصر جمشید پاکستان کے لیے دو بار کھیلنے پر اتنے رن نہیں بنا پائے ہیں جتنے انہوں نے کیچ چھوڑے ہیں، اس لیے انہیں اس شرمناک تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے ایک اور چانس نہیں دینا چاہیے۔ ان کی جگہ سرفراز احمد کو جگہ دینی چاہیے جو ٹاپ آرڈر میں جارحانہ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔
بھلے ہی سرفراز احمد پریکٹس میچز میں ناکام رہے ہیں، لیکن وہ کم از کم ناصر جمشید اور یونس خان سے تو بہتر ہی کارکردگی دکھائیں گے۔
سرفراز کی سلیکشن عمر اکمل کے لیے بھی رلیف ہو گی، جنہیں کیچ ڈراپ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پارٹ ٹائم وکٹ کیپر ہیں۔ پاکستانی فینز کو یہ جاننا چاہیے کہ سرفراز احمد پریکٹس میچوں میں نہ ہی اچھی کیپنگ کر سکے ہیں اور نہ ہی بیٹنگ۔
آسٹریلیا کی باؤنسی وکٹ کئی پاکستانی وکٹ کیپرز کے لیے مشکلات کھڑی کر چکی ہے جس میں معین خان بھی شامل ہیں جنہیں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگا تھا۔
امید ہے کہ مینیجمنٹ عرب امارات کے خلاف محمد عرفان کو کھلانے کے بجائے یاسر شاہ کو کھلائے گی تاکہ وہ آرام کر سکیں۔ محمد عرفان اس وقت جسمانی طور پر اتنے فٹ نہیں ہیں کہ وہ اتنی جلدی ایک اور میچ کھیل سکیں، اور انہیں ساؤتھ افریقا کے خلاف کھلانے کی ضرورت ہوگی۔ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ یاسر شاہ کو زمبابوے کے خلاف کیوں نہیں منتخب کیا گیا، تو ان کے لیے مصباح نے بتا دیا تھا کہ یہ ایک حکمتِ عملی تھی کیونکہ زمبابوے اسپن کو بہت اچھی طرح کھیل سکتا ہے۔
جانیے: 'گرانٹ فلاور کے کہنے پر یاسر کو نہیں کھلایا'
لیکن بہرحال اگر پاکستان بڑی مچھلیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی بیٹنگ پر توجہ دینی ہوگی۔
اس 40 سالہ بہادر کپتان کی اپنی کچھ حدود ہیں۔ پوری بیٹنگ لائن ان پر بھروسہ کر کے اگر آؤٹ ہوتی جائے، تو وہ قدرتی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکیں گے۔
اگر پاکستان بہترین ٹیموں کے لیے خطرہ بننا چاہتا ہے، تو ٹاپ آرڈر کے نوجوان کھلاڑیوں کو خود کو برائن لارا اور رکی پونٹنگ کی طرح نئی توانائی دینی ہوگی۔
ایک بہادر لیکن عمر رسیدہ سپاہی سے اتنے کی توقع کرنا بہت زیادہ ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں