'بینظیر بھٹو قتل میں دارالعلوم حقانیہ کے طلبہ ملوث'
راولپنڈی : بینظیر بھٹو قتل کیس کے سرکاری گواہ نے عدالت کو بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم کے قتل میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طلبہ ملوث تھے تاہم دارلعلوم کے ناظم نے طلبہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
دوران سماعت سرکاری گواہوں ایف آئی اے پشاور کے انسپکٹر نصیر احمد اور سب انسپکٹر عدنان نے عدالت میں کو بتایا کہ بینظیر کے قتل میں دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طلبہ براہ راست ملوث تھے۔
دونوں گواہوں نے اس حوالے سے موجود ریکارڈ بھی پیش کیا۔
اس موقع پر دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ناظم تعلیمات وصال احمد نے بھی اپنا بیان عدالت میں قلمبند کروایا۔
وصال احمد نے خصوصی عدالت کو بتایا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے مبینہ خودکش بمبار عبداللہ عرف صدام نادر عرف قاری اسماعیل اور گرفتار ملزمان رشید عرف ترابی اور فیض محمد دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم ضرور رہے ہیں لیکن دارالعلوم کا ملزمان کے قول فعل سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے بیان میں کہا کہ بینظیر بھٹو پر حملے میں ملوث حملہ آوروں میں سے کچھ تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی دارالعلوم حقانیہ چھوڑ چکے تھے۔
بینظیر بھٹو قتل کے حوالے سے خصوصی عدالت میں اب تک تین سو سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں جب کہ پانچ چالان بھی عدالت میں جمع کروائے جاچکے ہیں۔
کیس کی جمعرات یعنی آج ہونے والی سماعت کے دوران وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے کرائسس مینجمنٹ سیل کے سابق ڈی جی بریگیڈیر ریٹائرڈ جاوید اقبال چیمہ نے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ بینظیر کے قتل کے بعد انہوں نے جو پریس کانفرنس کی تھی وہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی جانب سے انہیں سیکرٹری داخلہ کی موجودگی میں حساس ادارے کے سربراہ نے دی تھی۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ پریس کانفرنس میں جو کچھ بھی انھوں نے کہا وہ ان کا اپنا نکتہ نظر نہیں تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں