مدارس و اسکولوں کے نصاب میں اصلاحات کا اعلان
لاہور : دہشت گردی کے خلاف اپنے اقدامات میں تیزی لانے کے لیے پنجاب حکومت نے مدارس، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں اصلاحات، مدارس اور افغان مہاجرین کی تفصیلات اکھٹا کرنے جبکہ ' سیف سٹی' پراجیکٹ' متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان فیصلوں کا اعلان وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بدھ کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
صوبے میں پہلے ہی نفرت پھیلانے خصوصاً تکفیری تقاریر، وال چاکنگ اورمساجد میں لاﺅڈ اسپیکرز کے غلط استعمال کے خلاف قوانین متعارف کرائے جاچکے ہیں اور اب تک ہزاروں افراد کو پکڑا بھی گیا ہے۔
شہباز شریف نے بتایا کہ اسکولوں اور مدارس کے نصاب میں مذہبی برداشت سے متعلق مضامین کو حصہ بنایا جائے گا اور اس حوالے سے کافی حد تک ابتدائی کام مکمل کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینے والے گانوں اور ڈراموں کی تحریروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جو کہ معاشرے کی ذہنیت کو بدلنے والے اقدامات کا حصہ ہے۔
تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ دہشت گردی کو راتوں رات شکست نہیں دی جاسکتی اور اس کے لیے وقت درکار ہوگا کیونکہ شدت پسندی نے لوگوں کے ذہنوں میں برسوں سے جگہ بنا رکھی ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ " سیف سٹی پراجیکٹ" کے تحت ایک مرکزی کمانڈ کنٹرول سسٹم صوبے کے اہم شہروں میں قائم کیا جائے گا جو کہ مختلف سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کرے گا جیسے محلوں میں لڑائیاں، چوریاں اور دہشت گردی وغیرہ اور اس حوالے سے ردعمل کو متحرک کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور سے آغاز کرتے ہوئے اربوں روپوں کی لاگت سے سی سی ٹی وی کیمرے، گاڑیوں کے اسکینرز اور دیگر آلات نصب کیے جائیں گے اور اس پراجیکٹ کو بعد میں پانچ دیگر اہم شہروں تک توسیع دی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے کے تمام اخراجات خود اٹھائے گی اور وفاقی حکومت سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کم از کم ایک ہزار بائیو میٹرک مشینیں خریدی جائیں گی اور انہیں چھاپہ مار ٹیموں کی جانب سے مشتبہ افراد کی قومیت کی تصدیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا " صوبے میں افغان مہاجرین اور مدارس کی سو فیصد نقشہ کشی کی جائے گی"۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ سے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو متحرک کرنے کی درخواست کی جائے گی جبکہ فوجی عدالتوں کو مقدمات بھجوانے اور طریقہ کار کے حوالے سے اجلاسوں کو معمول بنایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے " طاقت کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت، انصاف اور اقتصادی سرگرمیوں کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے جبکہ غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا"۔
انہوں نے اس حوالے سے اپنی حکومت کے مختلف منصوبوں اور اسکیموں کا حوالہ بھی دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت غیر ریاستی عناصر خاص طور پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ادارے جسے عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا ہے، کے خلاف کارروائی کرے گی تو ان کا کہنا تھا " ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں"۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی توجہ اداروں پر نہیں افراد پر مرکوز ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ " کالعدم عناصر" کسی نئے ادارے کے نام سے دوبارہ کام شروع نہ کرسکیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا تکفیری ریمارکس نشر کرنے والے ایک اینکر پرشن اور ایک نجی ٹی وی چینیل کے دیگر عملے کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کے تحت ہزاروں افراد کو پکڑا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مدارس کے چار سو غیرملکی طالبعلموں کے خلاف مقدمات درج ہیں جن کے ویزوں کی مدت ختم ہوچکی ہے اور ان کیسز کو وفاقی حکومت کو بھیجا جائے گا کیونکہ وہی انہیں ملک بدر کرنے کی منظوری دے سکتی ہے۔