• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی

شائع February 25, 2015
مرد حضرات زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں، کیونکہ مرد کا اپنے مسائل کا اظہار کرنا کمزوری کی علامت جو سمجھا جاتا ہے — کری ایٹو کامنز
مرد حضرات زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں، کیونکہ مرد کا اپنے مسائل کا اظہار کرنا کمزوری کی علامت جو سمجھا جاتا ہے — کری ایٹو کامنز

صبح کے 7:30 بجے جیسے ہی سورج کی روشنی میرے کمرے میں داخل ہونا شروع ہوئی، میں نے ہاتھ بڑھا کر الارم بند کر دیا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا، اور پھر پیدل ہی یونیورسٹی کے لیے نکل گئی۔

راستے میں مجھے سارہ دکھائی دی۔ علیک سلیک کے بعد سارہ نے مجھے بتایا کہ اس نے آپٹومیٹری میں داخلے کے لیے اپلائی کر دیا ہے، اور توقع ہے کہ جلد ہی وہ یونیورسٹی جوائن کر لے گی۔ میں نے اسے مبارکباد دی۔ مجھے حیرت اور خوشی کا ملا جلا احساس ہوا۔ اس بات پر نہیں کہ اس نے آپٹومیٹری میں اپلائی کیا ہے۔ بلکہ اس بات پر کہ وہ یہاں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہے۔

میری سارہ سے واقفیت کئی سال پہلے ہوئی تھی، جب میں سائیکولاجی کے لیے اپنا ایک اسائنمنٹ مکمل کر رہی تھی۔ سارہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب وہ چھوٹی تھی، تو جب بھی کوئی چیز اس کے مطابق نہ ہوتی، تو وہ اپنی کلائیوں کو بلیڈ سے کاٹا کرتی تھی۔ خودکشی کا یہ رجحان اس میں 16 سال کی عمر سے ہی نظر آنے لگا تھا۔

پڑھیے: دنیا میں ہر 40 سیکنڈ بعد ایک خودکشی

جب اس سے پوچھا کہ اس نے اپنے گھر میں کسی سے بات کیوں نہیں کی، یا کسی سے مدد کیوں نہیں طلب کی، تو اس کا جواب تھا، 'میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے پاگل سمجھیں'۔ گھر والوں کی طرف سے پاگل قرار دیا جانا بہت عام ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں پر ایسا ہی ردِ عمل دیا جاتا ہے۔

سارہ خودکشی سے صرف اس لیے بچ پائی، کیونکہ ایک دوست نے اس کی کلائی پر زخموں کے نشانات دیکھے۔ اسی دوست نے ایک ٹیچر کو سارا ماجرا بتایا۔

وہ ٹیچر اسکول کی ماہرِ نفسیات بھی تھیں۔ وہ روزانہ اس کے ساتھ بیٹھا کرتیں، جب تک کہ اسے خودکشی کے خیالات آنے بند نہیں ہو گئے۔ اس کی بحالی کو مانیٹر کرنے کے لیے اس سے سوالنامے بھروائے گئے، جبکہ اس دوران وہ اپنے خیالات کو ڈائری میں بھی لکھتی رہی۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے مسائل پر بات کرنے کی پوزیشن میں آگئی۔

ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے آس پاس موجود ڈپریشن میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔

کیا یہ اس لیے ہے کہ ہم خود کو اس کے لیے ماہر نہیں سمجھتے؟

مزید پڑھیے: ڈپریشن کی چند عام علامات

یا ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہم ایسے مسائل حل کرنے کے بجائے آنکھیں چرانا بہتر حل سمجھتے ہیں؟

سارہ کی حالت بہت سارے ساتھی طلبا نے دیکھی ہوگی، لیکن صرف ایک نے اس بارے میں بات کی۔ خاموش رہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ میں نے بھی یہی کیا تھا جب میں پاکستان گئی تھی۔

جب میں 2013 میں پاکستان گئی تھی، تو میں ایک لڑکی سے ملی جو اپنے ماسٹرز کے امتحانات کی تیاری کر رہی تھی۔ مجھے یہ تو محسوس ہوا جیسے کچھ گڑبڑ ہے، لیکن میں واضح طور پر نہیں سمجھ سکی کہ کیا معاملہ ہے۔ شاید میں چپ ہی رہتی کیونکہ میں اس سے پوچھ کر اسے مشتعل نہہیں کرنا چاہتی تھی۔

بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس کی والدہ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا تھیں، اور اکلوتی بیٹی ہونے کے سبب گھر کا سارا بوجھ اس پر تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ وہ خاموش رہتی، اداس رہتی، اپنے خیالات میں کھوئی رہتی، اور اس کا غلط مطلب لیا جاتا تھا۔ لیکن پھر کئی دفعہ وہ شدید غصے میں بھی آجاتی۔

وہ اداس نہیں تھی، بلکہ ڈپریشن میں تھی۔

اب بھی اس کے پاس مدد حاصل کرنے یا اپنے مسائل پر بات کرنے کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ وہ کسی سے بھی مدد قبول کرنے سے کتراتی ہے، اور اپنے رشتہ داروں سے بھی غصے سے پیش آتی ہے۔

زیادہ تر لوگوں کی عمومی سوچ یہ ہوتی ہے کہ 'جس کے پاس سب کچھ ہو، اسے ڈپریشن نہیں ہونا چاہیے۔' یہ سوچ مکمل طور پر غلط ہے۔ ڈپریشن ایک بیماری ہے، اور اس کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے، بھلے ہی وہ کتنا ہی کامیاب اور خوشحال کیوں نہ ہو۔

جانیے: ڈپریشن سے متعلق 10 غلط فہمیاں

میں پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو جانتی ہوں جو زبردست زندگیاں جیتے ہیں، لیکن پھر بھی ڈپریشن میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور جب ڈپریشن ناقابلِ برداشت ہونے لگتا ہے تو وہ بغیر نسخے کے خریدی گئی دواؤں کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ پھر ان میں سے زیادہ تر لوگ آہستہ آہستہ ایک کے بجائے دو اور پھر تین اور پھر کئی کئی ٹیبلٹس لینا شروع کر دیتے ہیں، تاکہ ڈپریشن سے نجات حاصل کی جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈپریشن دنیا میں 80 فیصد سے زائد خودکشیوں کا ذمہ دار ہے۔ مرد حضرات زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں، کیونکہ وہ بول نہیں پاتے۔ مرد کا اپنے مسائل کا اظہار کرنا کمزوری کی علامت جو سمجھا جاتا ہے۔

روبن ولیمز، شہزادی ڈیانا، میریلن منرو سمیت مشہور شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے جو ڈپریشن کا شکار رہ چکی ہے۔ حال ہی میں دیپکا پڈوکون نے بھی اس کا اعتراف کیا اور لسٹ میں ایک نام کا اضافہ کیا۔

دیپکا نے بتایا کہ وہ ماضی میں ڈپریشن اور اینزائٹی کا شکار رہ چکی ہیں، اور یہ کہ انہوں نے اپنے ڈپریشن پر قابو اپنی خالہ اور ماہرِ نفسیات سے بات کر کے پایا۔ لیکن صدمہ انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ ڈپریشن سے مکمل طور پر آزاد ہوئیں، تو تب ہی ان کی ایک دوست نے خودکشی کر لی کیونکہ وہ بھی ڈپریشن اور اینزائٹی کا شکار تھیں۔

جانیے: خودکشی کی کوشش کرنے والی اہم شخصیات

لیکن پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ڈپریشن صرف دماغ کا فتور ہے اور اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ کچھ حد تک درست ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اداس ہونے میں اور ڈپریس ہونے میں فرق ہے۔ اداس ہونا صرف ایک جذباتی حالت ہے، جبکہ ڈپریشن طویل مدتی عدم اطمینان کا نام ہے۔

ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو کہ دماغ میں سیروٹونن نامی کیمیکل کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ صرف دماغ کا فتور ہو، لیکن یہ ایک عارضی مسئلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک بیماری ہے، تو آئیں اس کے بارے میں بات کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ڈپریشن کا اسکریننگ ٹیسٹ یہاں لیجیے۔

لاریب چیمہ

لاریب اعظم چیمہ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں سائیکولاجی کی طالبہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: larebazamcheema@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Shoaib akhtar Feb 25, 2015 06:34pm
good
مصطفیٰ مہاروی Feb 25, 2015 07:42pm
پاکستان جہاں ملکی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اپنے عروج پہ ھو، جہاں سرمائے کی طاقت کے بل بوتے پہ غریب عوام کا استحصال کیا جا رھا ھو، جہاں عالمی اور ملکی سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ھو چکا ھو، جہاں مقتدر طبقہ تاریخ کی مکروہ ترین بدعنونیوں کو بھی اپنی بدعملی سے مات دے رھا ھو، جہاں سیاسی و مذھبی جماعتوں، حکومت، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ میں صرف سرمایہ دار‘ جاگیردار اور جرنیل ھی بیٹھے ہوئے ہوں، جہاں ھر طاقت ور صرف اپنے طبقے کی بہتری کیلئے پالیسی بنائے، جہاں خط غربت کے نیچے سسکنے والوں کو زمین کے نیچے دبا دینے کا پروانہ عام ھو، جہاں غربت اور امارت میں خوفناک اضافہ کر دیا گیا ھو، جہاں سماج/معاشرہ تباھی کے دھانے پہنچا دیا گیا ھو، وھاں بدقسمت پاکستانی شدید ترین نفسیاتی الجھنوں کا شکار کیوں نہ ھو اور اپنی غربت اور مہنگائی کے ھاتھوں خود کشی نہ کرے تو اور کیا کرے؟ دنیا بھر میں ہر چالیس سکینڈ بعد ایک خود کُشی کی جاتی ہے۔ اس طرح روزانہ دو ہزار افراد خودکشیاں کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خودکشی کے اعدادوشمار اول تو میسر ھی نہیں اور اگر کہیں سے ملیں بھی تو ان پہ انحصار ھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر ایک لاکھ افراد میں خودکشی کی شرح 24.4 فیصد ہے۔دنیا بھر میں خود کُشیوں کی شرح کے لحاظ سے ڈبلیو ایچ او کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ خود کُشیاں شمالی کوریا میں کی جاتی ہیں۔ وہاں ہر ایک لاکھ افراد میں سے تقریباﹰ چالیس افراد خود کُشی کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ جنوبی کوریا میں بھی، وہاں یہ تعداد تقریباﹰ سینتیس افراد بنتی ہے۔ اسی طرح مشرقی یورپ اور روس میں بھی حالات پریشا
محمد ارشد قریشی Feb 28, 2015 11:21am
پاکستان میں خودکشی کا رجحان واقعی بڑھتا جارہاہے جس کی بنیادی وجہ غربت نا انصافی لوٹ مار ہے یہ سب دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی ڈپریشن کا ہی شکار ہوگا کاش آج بھی وہ حاکم ہوتے جو جانوروں کے حق کے بارے میں بھی سوچتے تھے کہ دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرجائے گا تو حاکم وقت اس کا جوابدہ ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024