فوجی عدالتوں کے ججز کے لیے سیکیورٹی کی منظوری
اسلام آباد : صدر مملکت ممنون حسین نے ایک آرڈنینس کا اجراءکیا ہے جس کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ 2015 میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ حال ہی میں تشکیل دی جانے والی فوجی عدالتوں، ان کے پریزائیڈنگ افسران، فوجی پراسیکیوٹرز اور وکلاءسمیت گواہوں کو سیکیورٹی فراہم کی جاسکے۔
یہ ترمیم دہشت گردوں کے ان کیمرہ ٹرائل اور کارروائی ویڈیو لنک کے ذریعے کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
اس کا اطلاق ان علاقوں میں ہوگا جہاں فوجی عدالتوں کو تشکیل دیا گیا ہے یا تشکیل دیا جائے گا۔
ایوان صدر کی جانب سے جاری اعلان کے مطابق " وزارت دفاع کی ارسال کردہ سمری کو صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے پر منظور کرتے ہوئے پاکستانی آرمی ایکٹ (ترمیمی) آرڈنینس 2015 کا اجراءکیا ہے"۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر بیرسٹر ظفر اللہ نے ڈان کو بتایا کہ یہ سمری وزارت دفاع نے ارسال کی تھی اور اس کی توثیق وزیراعظم نواز شریف کے قانونی مشیران نے کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس ترمیم کا مقصد فوجی عدالتوں کے ججز، وکلائ، فوجی پراسیکیوٹرز اور گواہان کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے جو کہ ہمیشہ ہی خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔
بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا تھا کہ حکومت ججز، وکلاءاور گواہوں کے تحفظ کے لیے تحفظ پاکستان آرڈنینس (پی پی او) 2014 میں کچھ شقوں کا اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد ججز، وکلاءاور گواہوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا اور مقدمات کی سماعت ویڈیو لنک یا ان کیمرہ ہوگی جنھیں عوام کے سامنے نہیں لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا " یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں، دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت اکثر دنیا کے بیشتر حصوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتی ہے"۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے بتایا کہ قانون شہادت آرڈر 1984 کی شق 164 کے تحت حساس مقدمات کی سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے کی جاسکتی ہے " ہم ججز، وکلاءاور گواہوں کے تحفظ کے لیے مخصوص قوانین میں دفعات کے اضافے کے عمل سے گزر رہے ہیں"۔
یورپی قوانین کے تحفظ سے متعلق قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیشتر گواہوں کو بدل دیا جاتا ہے جبکہ ججز کو نقاب پہننے کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ وہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے دوران اپنی شناخت چھپا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام اور دہشت گردی کے مقدمات انہیں بھیجنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سول عدالتوں کو شدید دباﺅ کا سامنا ہے اور ان مقدمات کی سماعت کے دوران خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس طرح کے مقدمات تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
حکومت کا ماننا ہے کہ وکلائ، ججز، گواہان اور پراسیکیوٹرز ہر وقت دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی کارروائی کے دوران حملے کے خطرے کی زد میں ہوتے ہیں، تاہم گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے دوران تمام پارلیمانی جماعتوں نے متفقہ طور پر سول دہشت گردوں کے مقدمات چلانے کے حوالے سے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔
فوجی عدالتوں کا قیام آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم (21 ویں آئینی ترمیم) کے زیرتحت اور دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے زیرتحت عمل میں آیا جسے سیاسی قیادت نے سانحہ پشاور کے واقعے کے بعد اپنایا تھا۔
اب تک نو فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آچکا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تین، تین، سندھ میں دو جبکہ بلوچستان میں ایک عدالت قائم ہوئی۔
عدالت نے فاٹا اور آزاد کشمیر میں بھی فوجی عدالتوں کی تشکیل کے لیے تجاویز اور سمریز کی منظوری دے دی ہے۔