برساتی تجزیہ کار
پاکستانی کرکٹ ٹیم پر برا وقت کیا آیا، چلے ہوئے کارتوس کہیں یا سابق کرکٹرز، نیوز چینلز پر بیٹھ کر ٹیم مینجمنٹ سمیت پوری ٹیم کو خوب لتاڑ رہے ہیں۔ یہ تبصرہ کار یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ خود بھی کھلاڑی تھے، تب انہیں خود تو کسی کا مشورہ سمجھ نہیں آتا تھا۔
ان تمام سابق کھلاڑیوں کا حال بھی بالکل ان سابق حکمرانوں جیسا ہی ہے جو اپنے دور میں عوام کے لیے کچھ کر نہیں سکے اور دورِ حکومت مکمل ہونے کے بعد آئے روز کسی نا کسی نیوز چینل پر بیٹھ کر موجودہ حکمرانوں کو خوب لتاڑتے ہیں اور اپنے دور حکومت کو ایسے گردانتے ہیں جیسے اس دور میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست تھا۔ مگر جب سے موجودہ حکمران برسر اقتدار آئے ہیں، آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔
خیر ہم تو بات کر رہے تھے کرکٹ ورلڈ کپ کی وجہ سے ظہور پذیر ہونے والے موسمی تجزیہ کاروں کی، جو میچ شروع ہونے سے قبل ہی بن سنور کر اسٹوڈیوز یا پھر اپنے گھروں سے ہی سیٹلائٹ کے ذریعے زہر آلود تجزیے کرتے ہیں۔
کچھ چینلز تو اپنی اوقات کے مطابق ایسے سابق کرکٹر کو بطور تجزیہ کار پیش کر رہے ہیں جو کہ شاید کچھ ون ڈے یا دو چار ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے ہوں گے، مگر اب وہ ایسے تجزیے کرتے ہیں جیسے ان کے دور میں پاکستانی ٹیم ان کی وجہ سے ہی کئی ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔
اس کے علاوہ تقریباً تمام چینلز کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ کی سب سے بڑی کوریج کے دعوے کیے جارہے ہیں اور پاکستان کے میچوں کے علاوہ دیگر میچوں پر بھی منفرد اور حسبِ توفیق تجزیات پیش کیے جارہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پاکستان کے علاوہ میچوں میں صرف تجزیات نشر کیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کے میچوں کے بعد تجزیات، جذبات کے تڑکے کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
اکّا دکا چینلز کی جانب سے ورلڈ کپ کی خصوصی کوریج کے لیے اپنے اپنے نمائندے بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھیجے گئے ہیں۔ مگر ان کا کام صرف نیٹ پریکٹسز کی فوٹیج بنانا اور ٹیلی فونک بیپرز دینا ہی ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ ان کی توفیق کچھ کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی، اور اس کی وجہ یہ کہ نا تو ان چینلز کا کسی کھلاڑی کے ساتھ کنٹریکٹ سائن ہے اور نا ہی کسی کمنٹیٹر کے ساتھ سیٹنگ۔
ایک چینل نے تو پابندی کے شکار سلمان بٹ کو ہی تجزیہ کار بنا دیا ہے جو کہ میچ سے قبل بیٹسمینوں کو حوصلے اور تحمل سے کریز پر جمے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، حالانکہ خود وہ اکثر اوقات کھانے کے بعد پانی اپنی باری کے بعد واپس آ کر پیتے تھے۔
ماضی میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل بظاہر سب سے بہترین سابق کھلاڑیوں کو تجزیہ کار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور یقیناً اس کی وجہ چینل کے پاس پیسے کی فراوانی ہونا ہے۔
اس چینل پر ممبئی سے بیٹھ کر سابق پاکستانی فاسٹ باؤلر راولپنڈی ایکسپریس ایسے تیکھے تجزیے کرتے ہیں کہ بعض اوقات دیکھنے والا سوچتا ہے کے جیسے یہ پاکستانی ٹیم کے استاد ہوں۔ مذکورہ استاد سابق فاسٹ باؤلر ہونے کے باوجود بیٹسمینوں کو بھی ایسے مشورے یا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جیسے ماضی میں پاکستانی ٹیم کی طرف سے اوپننگ بھی یہی کرتے تھے اور اٹیک باؤلنگ بھی انہی سے کروائی جاتی تھی۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب وہ کھیلتے تھے تو آئے دن ان فٹ ہوجایا کرتے تھے اور خود ان تیز ترین گیند پھینکنے والے مایہ ناز باؤلر کو 2003 کے ورلڈکپ کے بعد ٹیم سے نکال دیا گیا تھا جب انہیں ہندوستان کےخلاف میچ میں 10 اوورز میں 72 رنز پڑے تھے۔
اس کے علاوہ ویڈیو لنک پر مذکورہ چینل پر سابق پاکستانی آل راؤنڈر بھی سنسنی سے بھرپور تبصرہ کرتے ہیں جنہوں نے اپنے پورے کرکٹنگ کریئر میں 143 ون ڈے اور 21 ٹیسٹ میچز کھیلےاور 143 میچز میں صرف 3 نصف سنچریاں بنائیں۔ آج یہ عظیم سابق آل راؤنڈر بیٹسمینوں کو سیدھے بلے سے کھیلنے اور باؤلرز کو لائن اینڈ لینتھ پر باؤلنگ کروانے کے مشورے دیتے ہیں۔
ایک اور تجزیہ کار، جو شاید دل سے دعائیں کریں تو پاکستان جیت جائے، بھی مصباح پر اکثر و بیشتر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا پہلے مؤقف تھا کہ مصباح تو بیٹسمین ہیں ہی نہیں اور نا ہی ان کے پاس کوئی شاٹ ہے۔ بد قسمتی سے یہ تجزیہ کار کرکٹ سے بھی ویسے ہی آؤٹ ہوئے جیسے کہ وہ میچ میں آؤٹ ہوجاتے تھے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔
ایک اور چینل پر الٹے ہاتھ سے کھیلنے والے سابق کپتان بھی تجزیہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو کہ پاکستانی ٹیم کی شکستوں کا ذمہ دار سلیکشن کمیٹی کو ٹھہراتے ہیں، حالانکہ جس دور میں وہ خود سلیکشن کمیٹی کا حصّہ تھے، تب بھی پاکستان کھیل کر نہیں بلکہ قسمت سے ہی جیتا تھا۔
ایک ایسا چینل بھی ہے جس پر مایہ ناز سپنر سعید اجمل، عمران نذیر اور انتہائی سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز قیمتی کرکٹری مشورے مفت بانٹے دکھائی دیتے ہیں۔ سعید اجمل کی قابلیت پر تو کسی کو شک نہیں۔ مگر عمران نذیر تو خود اپنی پرفارمنس کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں اور جب وہ کھیلتے تھے بھی تو شاذ و نادر ہی پچ پر ٹکتے تھے۔
باقی رہ گئے پرانے ترین سرفراز نواز تو ان کے زمانے کی کرکٹ مجھے تو یاد نہیں۔ لیکن سنا ہے کہ وہ اپنے وقت کے بہترین فاسٹ باؤلر تھے اور سوئنگ کے ماسٹر تھے۔ مگر پھر یاد آتا ہے کہ اس زمانے میں تو سب کچھ جائز ہوتا تھا۔ بال ٹمپرنگ پکڑنے کے لیے کیمرے بھی نہیں ہوتے تھے اور کرکٹ بھی پی آئی اے کے پرانے یونیفارمز پہن کر کھیلی جاتی تھی۔ تو اس لیے ان کا تجربہ اور ان کا شاندار کریئر ایک طرف، لیکن معذرت کے ساتھ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں اور اس وقت کا تجربہ اب کام نہیں آسکتا۔
اتنے سارے تجزیہ کاروں یا کوچز کی موجودگی میں پتہ نہیں کیوں پی سی بی نے وقار یونس اور معین خان کی خدمات لے رکھی ہیں۔ اگر پی سی بی ان دونوں کی چھٹی کروا کر تمام ٹیم پلیئرز کو نیوز چینلز دیکھنے کا پابند کر دے تو ہوسکتا ہے کہ کچھ بہتری ہو۔ ویسے بھی پاکستانی ٹیم کھیل کر نہیں بلکہ قسمت سے ہی جیتی ہے۔ لہٰذا جتنے زیادہ کوچز ہوں گے، اتنے ہی زیادہ لوگوں کی قسمتیں پاکستان کا ساتھ دیں گی۔ وہ بھی مفت میں۔
نہ کوچ کا خرچہ، اور نہ ہی ٹیم میں اختلافات کی کوئی فکر۔ ہے نا بہترین نسخہ؟
تبصرے (4) بند ہیں